تشریح:
(1) بعض نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ قیامت کے دن فیصلے صرف لوگوں کے درمیان ہوں گے جبکہ درست یہ ہے کہ پہلے لوگوں کے درمیان فیصلے ہوں گے، پھر حیوانات کے درمیان بھی فیصلہ فرمایا جائے گا۔
(2) یہ قیامت کے دن کی بات ہے۔ حقوق اللہ میں سب سے اہم نماز ہے، لہٰذا پہلے اسی کا حساب لیا جائے گا۔ اگر اس میں کامیابی حاصل ہو گئی تو امید ہے باقی حقوق اللہ میں بھی رعایت حاصل ہو جائے گی اور اگر نماز ہی میں ناکام ہو گیا تو باقی حقوق اللہ کا حساب لینے کی ضرورت ہی نہ رہے گی۔ یا ان میں کامیابی نہ ہو گی۔ حقوق العباد میں سب سے اہم جان کی حرمت ہے۔ اگر کسی نے یہ حق ضائع کر دی، یعنی کسی کو ناحق قتل کر دیا تو باقی حقوق کی ادائیگی کوئی معنیٰ نہیں رکھتی۔ اور اگر کوئی شخص اس حق میں گرفتار نہ ہوا تو باقی حقوق میں بھی نجات کی توقع کی جا سکتی ہے۔ معلوم ہوا، ان دو چیزوں کے فیصلے پر ہی نجات کا دار و مدار ہے۔ یا ان دو چیزوں کی اہمیت مقصود ہے کہ حقوق اللہ میں سب سے پہلے نماز کا حساب ہو گا اور حقوق العباد میں سے قتل کا فیصلہ سب سے پہلے ہو گا۔ باقی حساب کتاب اور فیصلے بعد میں ہوں گے۔ لیکن پہلے معنیٰ زیادہ مؤثر ہیں۔ و اللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 4 / 328 :
أخرجه النسائي ( 2 / 163 ) و ابن نصر في " الصلاة " ( ق 31 / 1 ) و ابن أبي
عاصم في " الأوائل " ( ق 4 / 2 ) و الطبراني في " المعجم الكبير " ( 10425 )
و القضاعي في " مسند الشهاب " ( 11 / 2 / 1 ) عن شريك عن عاصم عن أبي وائل
عن عبد الله قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : فذكره .
قلت : و هذا إسناد حسن في الشواهد رجاله ثقات غير أن شريكا و هو ابن عبد الله
القاضي سيء الحفظ . لكن الحديث صحيح ، فإن شطره الثاني في " الصحيحين "
و النسائي و ابن أبي عاصم و غيرهم من طريق أخرى عن أبي وائل به . و كذلك رواه
ابن أبي الدنيا في " الأهوال " ( 91 / 2 ) و البيهقي في " شعب الإيمان " ( 2 /
113 / 2 ) و أحمد ( 3674 و 4200 و 4213 و 4214 ) و غيرهم . و الشطر الأول له
شواهد من حديث أبي هريرة و تميم الداري عند أبي داود و غيره و هو مخرج في "
صحيح أبي داود " ( 810 - 812 ) و حديث تميم عند الطبراني أيضا ( 1255 و 1256 )