تشریح:
(1) پیچھے گزر چکا ہے کہ اہل بیت خمس کو اپنا حق سمجھتے تھے جبکہ دیگر صحابہ کے نزدیک خمس بیت المال کی ملکیت ہوتا ہے، البتہ اس میں سے اہل بیت کے محتاج لوگوں سے تعاون کیا جائے گا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خیال کے مطابق خیبر کے خمس، بنو نضیر کی زمینوں، فدک کی زمین اور صدقۃ النبی ﷺ سے وراثت طلب کی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وضاحت فرمائی کہ یہ زمینیں آپ کی ذاتی نہیں بلکہ بیت المال کی ملکیت تھیں، لہٰذا ان میں وراثت جاری نہیں ہو گی۔
(2) ”نبیﷺ کے صدقہ سے“ یہ زمین بعد میں اس نام سے مشہور ہوئی ورنہ اگر اسی وقت یہ صدقہ کے نام سے معروف تھی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اس سے وراثت طلب نہ فرماتیں۔ بعض دیگر روایات میں آتا ہے کہ یہ زمین ایک یہودی شخص (مخیریق) نے بطور وصیت آپ کے لیے ہبہ کی تھی۔
(3) ”وراثت نہیں چلتی“ کیونکہ نبی ﷺ نے اپنی جائیداد نہیں بنائی، نہ غنیمت سے حصہ لیا بلکہ آپ غنیمت سے خمس وصول فرماتے تھے جس سے اپنے اخراجات پورے کرنے کے بعد وہ مسملانوں کے مصالح میں صرف ہوتا تھا۔ گویا آپ نے خمس سے صرف ضروریات پوری کی تھیں، اسے اپنی ملکیت نہیں بنایا تھا بلکہ وہ دراصل بیت المال ہی کی ملکیت تھا۔ آپ کا یہ طرز عمل، اس لیے تھا کہ کوئی نابکار منافق یا کافر یہ نہ کہہ سکے کہ آپ نے دعوائے نبوت صرف مال جمع کرنے کے لیے کیا ہے۔ جب آپ نے اپنی زندگی میں کوئی جائیداد ہی نہیں بنائی بلکہ جو کچھ آتا تھا، وہ بیت المال میں جمع فرماتے تھے، صرف اپنے ضروی اخراجات وصول فرماتے تھے تو پھر وراثت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا خاتون ہونے کی وجہ سے اس حقیقت سے واقف نہ تھیں۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی آخری دور میں مدینہ منورہ تشریف لائے تھے، لہٰذا کوئی تعجب کی بات نہیں اگر ان حضرات کو یہ بات معلوم نہ ہو سکی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ جو کہ راز دار نبوت تھے، اس حقیقت سے مطلع تھے۔ یہ حدیث (ہمارے متروکہ مال میں وراثت نہیں چلتی) حضرت ابوبکر کے علاوہ بعض دیگر صحابہ سے بھی مروی ہے۔ سب سے بڑی دلیل رسول اللہ ﷺ کا اپنی زندگی میں طرز عمل تھا کہ آپ نے نہ کبھی غنیمت میں اپنا حصہ لیا، نہ خمس کو اپنا ذاتی مال سمجھا۔ صرف ضرورت کے لیے استعمال فرمایا۔ وراثت تو اس مال میں ہوتی ہے جو مملوکہ ہو۔ جب یہ مال (زمینیں وغیرہ) آپ کی ملکیت ہی نہیں تھا تو وراثت کیسے جاری ہوتی؟