تشریح:
(1) ترجمہ الباب کے ساتھ حدیث مبارکہ کی مناسبت بالکل واضح ہے کہ خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ ہر شرعی امیر کی بیعت مشروع ہے اور شرعی امیر پر اعتماد کا اظہار بھی لہٰذا مقدور بھر اس عہد کی وفا انسان پر واجب ہے۔ ہاں! البتہ استطاعت سے زیادہ ایفائے عہد کا کوئی شخص مکلف نہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا﴾ (البقرة: ۲۸۶/۲)
(2) لفظ ”مسلم“ کے عموم کی وجہ سے ہر چھوٹے بڑے امیر غریب عالم جاہل‘ مرد عورت‘ کالے گورے ‘آقا وملازم استاد وشاگرد‘عربی عجمی اور عزیز واقارب‘ نیز رشتہ دار کی خیر خواہی کرنا اور اسے نصحیت کرنا فرض ہے۔
(3) معلوم ہوا کسی بھی مسلمان کے لیے دھوکا دینا‘ ملاوٹ کرنا‘ بددیانتی اور خیانت کرنا‘ دوسرے مسلمان سے کینہ وبغض اور حسد وعناد رکھنا‘ کسی کی غیبت کرنا اور چغلی کھانا‘ نیز اس کی بابت کسی بھی قسم کے نقصان کا سوچنا قطعاََ ناجائز اور حرام بلکہ تقاضائے ایمان کے بھی منافی ہے۔ ایک اور فرمان رسول ہے۔: [لا يؤْمِنُ أحَدُكم حتى يُحِبَّ لأخيه ما يُحِبُّ لنفْسِه ] ”تم میں سے کوئی شخص(اس وقت تک) مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔“(صحيح البخاري، الإيمان، حديث:۱۳ وصحيح مسلم، الإيمان، حديث:۴۵)
(4) دنیا وآخرت کو کار آمداور قیمتی بنانے ‘نیز ابدی اور لازوال زندگی کو پر سکون اور آرام دہ گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان تمام انسانوں کو خیر خواہ رہے اس اس نصیحت و خیر خواہی کا دامن کسی بھی وقت نہ چھوڑے بلکہ تاحیات اس کو حرز جاں بنائے رکھے۔ وفقنا الله جميعا