تشریح:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ امام اور حاکم کے لیے اچھا، لائق و مخلص وزیر بنانا مشروع ہے تاکہ امارت کے اہم معاملات میں وہ امیر کا معاون و مددگار بنے اور امیر سے امارت کا کچھ بوجھ ہلکا کرے۔
(2) بعض امراء و حکام پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم اور اس کی خصوصی عنایت و رحمت ہوتی ہے کہ وہ ان کو سچے، سُچے، خالص اور کھرے وزیر عطا فرماتا ہے جو اس کے مخلص معاون اور ہمدرد و خیر خواہ ہوتے ہیں۔ امیر و امام اگر کوئی اہم بات بھول جائے تو وہ اسے یاد کراتے ہیں، اور اگر اسے یاد ہو تو اس سلسلے میں اس کا تعاون کرتے ہیں۔
(3) امیر و حاکم کو مطلق العنان قطعاً نہیں ہونا چاہیے کہ بغیر کسی کے صلاح و مشورے کے من مانے فیصلے کرے، محض اپنی رائے اور پسند کو ترجیح دے، اپنے آپ کو عقل کل سمجھے اور اپنی مرضی کی سیاست و سیادت اور حکمرانی کرے۔ ایسا کرنے سے رعایا کے بہت سے حقوق ضائع اور پامال ہوتے ہیں، بلکہ امیر و حاکم کو چاہیے کہ امین و دیانت دار، دین پر کاربند، پختہ فکر اور باعمل صاحب بصیرت و صاحب کردار وزیر و مشیر اپنائے جو اچھے مشوروں اور مثبت صلاحیتوں سے اس کی راہنمائی کریں۔ یہ معاملہ اس قدر اہم اور سنجیدہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جو تمام تر اعلیٰ و افضل انسانی کمالات کے حامل، ذہانت و فطانت اور شرافت و نجابت کے بادشاہ تھے، نیز آپ کو وحیٔ الٰہی کی تائید بھی حاصل تھی، اس کے باوجود آپﷺ کو ﴿وَشَاوِرْهُمْ فِي الأمْرِ﴾ کے امر سے حکماً مشاورت کا پابند کر دیا گیا۔ اس کے بعد تو اس مسئلے کی اہمیت کی بابت کسی مزید بات کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔
(4) ”وزیر“ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ بوجھ اٹھانے والے کے ہیں۔ مراد اس سے ساتھی اور معاون ہے۔ اچھا ساتھی اور معاون بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ صرف حاکم کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر ذمہ دار کے لیے حتیٰ کہ خاوند کے لیے اچھی بیوی بھی۔
الحکم التفصیلی:
قلت : و هذا إسناد صحيح ، رجاله ثقات ، و قد صرح بقية بالتحديث فأمنا بذلك شر
تدليسه . و ابن أبي حسين اسمه عمر بن سعيد بن أبي حسين النوفلي المكي .
و له طريق أخرى عن القاسم ، يرويه الوليد بن مسلم حدثنا زهير بن محمد عن
عبد الرحمن بن القاسم عن أبيه عن عائشة رضي الله عنها قالت : قال رسول الله
صلى الله عليه وسلم :
" إذا أراد الله بالأمير خيرا جعل له وزير صدق ، إن نسي ذكره ، و إن ذكر أعانه
و إذا أراد الله به غير ذلك جعل له وزير سوء ، إن نسي لم يذكره ، و إن ذكر لم
يعنه " .
أخرجه أبو داود ( 2932 ) و ابن حبان في " صحيحه " ( 1551 - موارد ) من طريقين
عن الوليد به . و رجاله ثقات رجال الشيخين غير أن زهير بن محمد و هو أبو المنذر
الخراساني ضعيف من قبل حفظه .
قال الحافظ : " رواية أهل الشام عنه غير مستقيمة ، فضعف بسببها .
قال البخاري عن أحمد : كأن زهير الذي يروي عنه الشاميون آخر .
و قال أبو حاتم : حدث بالشام من حفظه فكثر غلطه " .
قلت : لكنه في هذا الحديث قد حفظ أو كاد ، فإنه لم يخرج فيه عن معنى حديث
بقية . و الله أعلم .
صحيح الجامع الصغير ( 6595