تشریح:
(1) براق کا ذکر روایات معراج میں بیت المقدس تک ہی ملتا ہے، اس لیے کہا گیا ہے کہ بیت المقدس سے آگے آسمانوں کا سفر ایک سیڑھی نما چیز ”معراج“ کے ذریعے سے ہوا لیکن اس کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں۔ واللہ اعلم۔
(2) بیت المقدس میں تمام انبیاء علیہم السلام کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کے لیے حاضر ہونا اور آپ کا ان کی امامت کروانا آپ کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے جو کسی اور نبی کو نصیب نہیں ہوا۔ ظاہر تو یہی ہے کہ انبیاء علیہم السلام جسمانی طور پر حاضر تھے نہ کہ صرف روحانی طور پر جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جسمانی طور پر بیت المقدس اور آسمانوں پر تشریف لے گئے۔ فوت شدہ انبیاء علیہم السلام کے جسم بھی اللہ تعالیٰ محفوظ رکھتا ہے۔ (سنن ابی داود، الصلاة، حدیث:۱۰۴۷) اگر انبیاء علیہم السلام صرف روحانی طور پر ہی لائے گئے ہوں تو بھی واقعہ کی اہمیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بہرحال یہ معاملہ برزخ کا ہے جو انسان کی رسائی سے باہر ہے۔
(3)عام احادیث میں سدرۃ المنتہیٰ تک جانے کا ذکر ہی ملتا ہے مگر صحیحین کی ایک روایت میں ایک اور مقام پر آپ کے چڑھنے کا ذکر ہے جہاں سے آپ کو قلموں کی سرسراہٹ بھی سنائی دی۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: ۳۴۹، وصحیح مسلم، الایمان، حدیث:۱۶۳) لیکن اس مقام کا کوئی نام ذکر نہیں کیا گیا۔
(4)سورۃ البقرہ کی آخری آیات کا نزول بالاتفاق مدنی ہے اور واقعہ معراج مکی ہے۔ معراج میں سورۂ بقرہ کی آخری آیات دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیات عطا کرنے کا وعدہ کرلیا گیا جب کہ نزول بعد میں مدینہ منورہ میں ہوا۔ واللہ أعلم۔
(5)کبائر کی معافی کی دو صورتیں ہوں گی: جس کو اللہ تعالیٰ چاہے گا پہلے مرحلے ہی میں اپنے فضل و کرم سے معاف فرما کر جنت میں داخل فرما دے گا کیونکہ بعض کے بلاتوبہ بھی کبائر معاف ہوجائیں گے، ورنہ جہنم میں سزا بھگت کر پھر معافی ہوگی۔