تشریح:
(1) ”اپنی چیز“ جو چوری ہو چکی تھی یا کسی نے چھین لی تھی۔
(2) ”مشکوک اور متہم نہ ہو“ گویا وہ خود چور نہیں بلکہ اس نے چور سے خریدی ہے۔ ضروری نہیں کہ اسے اس کے چور ہونے کا علم ہو، البتہ اگر کسی کے چور ہونے کا علم ہو تو پھر اس سے کوئی چیز خریدنا ناجائز ہے کیونکہ غالب گمان یہی ہے کہ وہ چیز چوری کی ہو گی۔
(3) ”اتنی رقم دے کر جتنی کی اس نے خریدی ہے لے لے۔“ یہ نیکی کی تلقین ہے ورنہ وہ اس چیز کا اصل مالک ہے لیکن چونکہ دوسرے شخص کا بھی کوئی قصور نہیں، لہٰذا اس کی رقم بھی ضائع نہیں ہونی چاہیے۔ اگر اس کا قصور ثابت ہو، مثلاً: اس نے جاننے کے باوجود کہ یہ چیز چوری کی ہے، اس چیز کو خریدا ہو تو اسے تاوان ڈالا جا سکتا ہے۔ آئندہ حدیث میں اس حدیث کے خلاف حکم ہے کہ اصل مالک اپنی چیز لے جائے گا۔ خریدار بیچنے والے سے اپنی رقم وصول کرے گا۔ یہ روایت اصول کے مطابق ہے مگر خلفائے راشدین کا فیصلہ پہلی حدیث پر ہے۔ گویا حالات کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ اگر دوسرا شخص بالکل بے گناہ ہو تو پہلی حدیث کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا، مثلاً: بیچنے والے کا علم نہیں ہو سکتا یا وہ بھاگ گیا ہو یا وہ مر چکا ہو وغیرہ۔ اور اگر اس کا بھی قصور ہو، مثلاً: اسے علم تھا کہ یہ چیز چوری کی ہے یا بیچنے والے سے رقم مل سکتی ہے تو پھر دوسری حدیث کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ گویا دونوں احادیث کا محل ومقام الگ الگ ہے۔ واللہ أعلم!
(4) یہ اہم بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس حدیث کی سند میں امام نسائی رحمہ اللہ سے سہو ہوا ہے کہ انھوں نے صحابی کا نام ”اسید بن حضیر بن سماک“ بیان کیا ہے جو کہ بالکل غلط ہے۔ درست نام ہے: ’”اسید بن ظہیر“ اس غلطی پر امام مزی رحمہ اللہ نے اپنی معروف تالیف ”تہذیب الکمال“ میں تنبیہ فرمائی ہے۔ دیکھیے: (تھذیب الكمال: ۲: ۲۶۴، ۲۶۵) یہ صحابی اسید بن ظہیر ہی ہیں کیونکہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالٰی عنہ تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور خلافت میں فوت ہوئے ہیں اور ان کی نماز جنازہ بھی امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پڑھائی ہے۔ ذرا سوچئے کہ جو شخص حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانہ مبارک میں فوت ہو جائے، بھلا وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا زمانہ کس طرح پا سکتا ہے؟