سنن نسائی
49. کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل
95. باب: ایک آدمی کوئی چیز خریدتا ہے پھر مفلس ہو جات اہے اور چیز بعینہ اس کے پاس پائی جاتی ہے تو؟
باب: ایک آدمی کوئی چیز خریدتا ہے پھر مفلس ہو جات اہے اور چیز بعینہ اس کے پاس پائی جاتی ہے تو؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: If A Man Buy A Product Then Becomes Bankrupt, And The Product Itself Is Found With Him)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4694.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص مفلس قرار دیا جائے، پھر کوئی شخص اپنا سامان اس کے پاس بعینہٖ پا لے تو وہ اس سامان کا دوسروں سے زیادہ حق دار ہے۔“
تشریح:
مفلس وہ شخص ہوتا ہے جس پر اتنا قرض چڑھ جائے کہ وہ ادائیگی کے قابل نہ ہو۔ ہماری زبان میں اسے دیوالیہ کہتے ہیں۔ اس شخص پر یہ پابندی لگا دی جاتی ہے کہ تو اپنے مال میں تصرف نہیں کر سکتا بلکہ اس کا مال فروخت کر کے جو کچھ میسر ہوتا ہے، وہ قرض خواہوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اور باقی قرض اسے معاف ہو جاتا ہے، مثلاً: اگر اس پر دس ہزار روپے قرض ہیں مگر اس کا مال کل پانچ ہزار روپے میں فروخت ہو تو اس کے قرض خواہوں میں ان کے قرض کا نصف نصف دیا جائے گا اور باقی معاف ہوگا۔ اس حدیث میں ایک استثنا کیا گیا ہے کہ اگر کسی کی کوئی چیز بعینہٖ اس کے پاس ہو، خواہ وہ اسے عاریتاً دی گئی ہو یا بیچی گئی ہو اور اس نے ابھی تک اس کی قیمت میں سے کچھ بھی ادا نہ کیا ہو تو وہ چیز پوری کی پوری اس کے مالک کو دے دی جائے گی۔ وہ چیز فروخت کر کے تمام قرض خواہوں میں تقسیم نہیں ہو گی، البتہ اگر اس نے اس کی قیمت میں سے کچھ ادا کر دیا ہو تو پھر وہ باقی سامان کے ساتھ فروخت ہوگی۔ اور اس کے مالک کو بھی دوسرے قرض خواہوں کے ساتھ ملا کر ان کے تناسب سے ادائیگی کی جائے گی، مثلاً: اگر ان کو ان کے قرض کا نصف دیا جا رہا ہو تو اسے بھی اس کے قرض کا نصف ہی دیا جائے گا۔ جمہور اہل علم اس استثنا کو مانتے ہیں مگر احناف نے استثنا کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ اس سے دوسرے قرض خواہوں کی حق تلفی ہوگی کہ ان کو تو ان کے قرض کا مثلاً نصف ملا لیکن یہ شخص اپنی چیز پوری کی پوری لے گیا۔ ان کے نزدیک یہ چیز بھی باقی سامان کے ساتھ فروخت ہوگی اور اس شخص کو بھی دوسرے قرض خواہوں کے تناسب سے ادائیگی کی جائے گی۔ احناف کی یہ بات درست نہیں کیونکہ اس شخص کو دوسرے قرض خواہوں پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس کی چیز بعینہٖ مفلس کے پاس موجود ہے جبکہ دیگر لوگوں کا مال تلف ہو چکا ہے۔ اب یہ قطعاً درست نہیں کہ مالک کے ہوتے ہوئے اس کی چیز بیچ دی جائے اور اسے نہ دی جائے۔ یوں سمجھئے کہ وہ بیع کالعدم ہوگئی کیونکہ ابھی کوئی ادائیگی نہیں ہوئی، لہٰذا چیز اصل مالک کو واپس مل گئی۔
الحکم التفصیلی:
قلت : إسماعيل بن عياش صحيح الحديث فى روايته عن الشاميين عند أحمد
و البخارى و غيرهما , و هذا من روايته عن الزبيدى , و هو شامى كما سبق , فعلته
مخالفته لمالك و يونس فإنهما أرسلاه كما تقدم . و قال ابن الجارود :
" قال محمد بن يحيى : رواه مالك و صالح بن كيسان و يونس عن الزهرى عن أبى بكر ,
مطلق عن رسول الله صلى الله عليه وسلم , و هم أولى بالحديث , يعنى من طريق
الزهرى " .
قلت : فلولا هذه المخالفة لصححنا حديثه بسنده , لكن قد جاء ما يشهد
لحديثه على ( التفضيل ) { كذا فى الأصل, و لعل الصواب : التفصيل } الذى فيه من
طرق أخرى كما يأتى , و لذلك فحديثه صحيح لغيره و الله أعلم .
الارواه:1442
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4689
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4690
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4680
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص مفلس قرار دیا جائے، پھر کوئی شخص اپنا سامان اس کے پاس بعینہٖ پا لے تو وہ اس سامان کا دوسروں سے زیادہ حق دار ہے۔“
حدیث حاشیہ:
مفلس وہ شخص ہوتا ہے جس پر اتنا قرض چڑھ جائے کہ وہ ادائیگی کے قابل نہ ہو۔ ہماری زبان میں اسے دیوالیہ کہتے ہیں۔ اس شخص پر یہ پابندی لگا دی جاتی ہے کہ تو اپنے مال میں تصرف نہیں کر سکتا بلکہ اس کا مال فروخت کر کے جو کچھ میسر ہوتا ہے، وہ قرض خواہوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اور باقی قرض اسے معاف ہو جاتا ہے، مثلاً: اگر اس پر دس ہزار روپے قرض ہیں مگر اس کا مال کل پانچ ہزار روپے میں فروخت ہو تو اس کے قرض خواہوں میں ان کے قرض کا نصف نصف دیا جائے گا اور باقی معاف ہوگا۔ اس حدیث میں ایک استثنا کیا گیا ہے کہ اگر کسی کی کوئی چیز بعینہٖ اس کے پاس ہو، خواہ وہ اسے عاریتاً دی گئی ہو یا بیچی گئی ہو اور اس نے ابھی تک اس کی قیمت میں سے کچھ بھی ادا نہ کیا ہو تو وہ چیز پوری کی پوری اس کے مالک کو دے دی جائے گی۔ وہ چیز فروخت کر کے تمام قرض خواہوں میں تقسیم نہیں ہو گی، البتہ اگر اس نے اس کی قیمت میں سے کچھ ادا کر دیا ہو تو پھر وہ باقی سامان کے ساتھ فروخت ہوگی۔ اور اس کے مالک کو بھی دوسرے قرض خواہوں کے ساتھ ملا کر ان کے تناسب سے ادائیگی کی جائے گی، مثلاً: اگر ان کو ان کے قرض کا نصف دیا جا رہا ہو تو اسے بھی اس کے قرض کا نصف ہی دیا جائے گا۔ جمہور اہل علم اس استثنا کو مانتے ہیں مگر احناف نے استثنا کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ اس سے دوسرے قرض خواہوں کی حق تلفی ہوگی کہ ان کو تو ان کے قرض کا مثلاً نصف ملا لیکن یہ شخص اپنی چیز پوری کی پوری لے گیا۔ ان کے نزدیک یہ چیز بھی باقی سامان کے ساتھ فروخت ہوگی اور اس شخص کو بھی دوسرے قرض خواہوں کے تناسب سے ادائیگی کی جائے گی۔ احناف کی یہ بات درست نہیں کیونکہ اس شخص کو دوسرے قرض خواہوں پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس کی چیز بعینہٖ مفلس کے پاس موجود ہے جبکہ دیگر لوگوں کا مال تلف ہو چکا ہے۔ اب یہ قطعاً درست نہیں کہ مالک کے ہوتے ہوئے اس کی چیز بیچ دی جائے اور اسے نہ دی جائے۔ یوں سمجھئے کہ وہ بیع کالعدم ہوگئی کیونکہ ابھی کوئی ادائیگی نہیں ہوئی، لہٰذا چیز اصل مالک کو واپس مل گئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص (سامان خریدنے کے بعد) مفلس ہو گیا، پھر بیچنے والے کو اس کے پاس اپنا مال بعینہ ملا تو دوسروں کی بہ نسبت وہ اس مال کا زیادہ حقدار ہے۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس باب کی احادیث کی روشنی میں علماء نے کچھ شرائط کے ساتھ ایسے شخص کو اپنے سامان کا زیادہ حقدار ٹھہرایا ہے جو یہ سامان کسی ایسے شخص کے پاس بعینہٖ پائے جس کا دیوالیہ ہو گیا ہو، وہ شرائط یہ ہیں: (الف) سامان خریدار کے پاس بعینہٖ موجود ہو۔ (ب) پایا جانے والا سامان اس کے قرض کی ادائیگی کے لیے کافی نہ ہو۔ (ج) سامان کی قیمت میں سے کچھ بھی نہ لیا گیا ہو۔ (د) کوئی ایسی رکاوٹ حائل نہ ہو جس سے وہ سامان لوٹایا ہی نہ جا سکے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that (Abu Hurairah) said: "The Messenger of Allah (ﷺ) forbade the price of a dog and stud fees for a stallion.