تشریح:
”اس کی خوشبو ستر سال کے فاصلے سے آتی ہے“ جنت کی خوشبو محسوس ہونے کی مسافت او فاصلے کی بابت شدید اختلاف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مفہوم کی احادیث کئی ایک ہیں۔ کسی حدیث میں ستر سال کا ذکر ہے تو کسی میں چالیس سال کا۔ مزید برآں یہ کہ کچھ احادیث میں سو سال کا ذکر ہے، کچھ میں پانچ سو سال کا اور بعض میں ہزار سال کا بھی ذکر ہے۔ اس اختلافِ مسافت کی بابت اہل علم محدثین کرام رحمہم اللہ نے مختلف توجیہات بیان فرمائی ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک ان احادیث کے مابین جمع وتطبیق کی صورت یہ ہے کہ موقف (جس جگہ روز قیامت لوگ کھڑے ہوں گے) سے کم از کم فاصلہ جہاں جنت کی خوشبو آ سکتی ہے وہ چالیس سال کی مدت کا ہے۔ اس سے زیادہ ستر سال کا فاصلہ ہے۔ یا پھر یہ عدد مبالغے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ اسی طرح پانچ سو برس، پھر ان میں سب سے زیادہ فاصلہ جہاں سے جنت کی خوشبو آ سکتی ہے، ہزار سال کا ہے۔ حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان مختلف روایات میں تطبیق اس طرح ہوگی کہ یہ مختلف لوگوں کے باہمی تفاوت درجات کے اعتبار سے ہے۔ جن کے درجات بلند ہوں گے انھیں زیادہ مسافت سے بھی جنت کی خوشبو آئے گی اور جو درجات ومنازل کے لحاظ سے کم ہوں گے انھیں کم اور تھوڑے فاصلے سے جنت کی خوشبو آئے گی۔ ابن العربی کا کہنا ہے کہ جنت کی خوشبو اپنی طبیعت و عادت کی بنیاد پر نہیں پائی جا سکتی بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت سے بندے کے اندر اس کے ادراک کی صلاحیت پیدا فرما دے گا، جس کی بنا پر مسافت سے جنت کی خوشبو آئے گی، کبھی ستر سال کی مسافت سے خوشبو آئے گی تو کبھی پانچ سو سال کی مسافت سے۔ واللہ أعلم! تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي للأتبوبي: ۳۶/ ۵۰، ۵۱)