تشریح:
(1) مصنف رحمہ اللہ نے یہاں غلام مملوک کے معنیٰ میں لیا ہے جب کہ بعض محققین نے یہاں غلام کے معنیٰ بچہ کیے ہیں۔ عربی میں لفظ غلام دونوں معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ظاہر ہے بچے پر قصاص نہیں۔ البتہ اگر غلام ہی مراد ہو تو یہ خطا کا مقدمہ ہوگا، یعنی اس سے خطأَ کان کاٹا گیا اور خطا کی صورت میں بھی قصاص نہیں ہوتا۔ دونوں صورتوں میں اس کے اولیاء پر دیت آنی تھی لیکن وہ خود کنگال تھے۔ ان سے کیا وصول ہونا تھا؟ لہٰذا آپ نے صلح کروا دی۔
(2) محقق کتاب نے اس روایت کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین اس روایت کو صحیح الاسناد قرار دیتے ہیں اور دلائل کی رو سے ان کی رائے ہی صحیح ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي للأتبوبي: ۳۶/ ۵۴- ۵۷)