تشریح:
(1) عکرمہ سے یہ روایت بیان کرنے والے دو راوی ہیں : ایک عبدالملک بن ابو بشیر اور دوسرے اشعث بن سوار۔ عبدالملک نے جب یہ روایت بیان کی تو کہا: حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ۔ جب یہی روایت اشعث نے بیان کی تو کہا: عن عکرمۃ عن ابن عباس، یعنی اشعث نے اسے صفوان بن امیہ کے بجائے ابن عباس کی مسند بنایا۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اشعث کی مخالفت، عبدالملک کی روایت کے لیے مضر نہیں کیونکہ وہ ثقہ راوی ہے جبکہ اشعث ضعیف ہے جیسا کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے بذات خود اس کی صراحت اگلی یعنی اشعث کی بیان کردہ روایت میں کردی ہے ۔ واللہ أعلم
(2) باب کا مقصد یہ ہے کہ چور محفوظ چیز اٹھائے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا غیر محفوظ چیز اٹھانے سے وہ چور تو بنے گا لیکن اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ بطور تعزیر کوئی اور سزا دی جا سکتی ہے ۔ محفوظ سے مراد مثلا: یا تو مالک کے پاس ہو اور اس نے وہ چیز اپنے پاس سنبھال کر رکھی ہو خواہ وہ سویا ہو یا جاگتا ہو یا وہ چیز بند جگہ میں ہو، مثلا: کمرے کا دروازہ بند ہو۔ لیکن اگر کوئی چیز گھر سے باہر پڑی ہو اور مالک بھی پاس نہ ہو تو اسے غیر محفوظ تصور کیا جا ئے گا۔ یا ایسے مقام پر ہو جو سب کے لیے کھلا ہے مثلا: مسجد، دفتر، سکول وغیرہ اور دروازہ بھی کھلا ہو، مالک بھی پاس نہ ہو تو اسے بھی غیر محفوظ تصور کیا جا ئے گا۔ مذکورہ واقعے میں حضرت صفوان نے چادر تہہ کرکے سر کے نیچے رکھی ہوئی تھی۔ ظاہر ہے یہ محفوظ تھی۔ اس نے چرا کر اپنے آپ کو ہاتھ کاٹنے کا سزاوار قرار دے لیا۔