تشریح:
(1)نفل نماز چونکہ ہر وقت پڑھی جاسکتی ہے، سفر میں بھی حضر میں بھی۔ اگر سفر میں قبلے کا یا نیچے اتر کر پڑھنے کا پابند کیا جاتا تو یہ ہوتا کہ مسافر نفلوں سے محروم رہتا یا سفر نہ کرسکتا، اس لیے نفل نماز میں رعایت رکھی گئی کہ مسافر سفر کے دوران میں سواری پر نماز پڑھ سکتا ہے، خواہ قبلے کی طرف منہ نہ ہو اور خواہ رکوع اور سجدہ نہ کرسکے، تاہم یہ ضروری ہے کہ آغاز کرتے وقت سواری کا رُخ قبلے کی طرف ہو، بعد میں چاہے جس طرف ہوجائے۔
(2)وتر کی نماز سواری پر پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وتر فرض یا واجب نہیں بلکہ نفل ہیں۔ احناف وتر کو واجب کہتے ہیں۔ مزید دیکھیے: (حدیث:۴۶۲)
(3)قبلے کی شرط اس وقت تک ہے جب تک ممکن ہو جب قبلہ رخ ہونا انسان کے بس ہی میں نہ ہو یا بعد میں بدستور قبلہ رخ رہنا محال ہو اور نماز کا وقت بھی جارہا ہو اور نیچے اترنا ناممکن اور بس میں نہ ہو اور بعد میں اس کی قضا ادا کرنا بھی پریشانی کا باعث ہو تو سواری پر فرض نماز پڑھی جاسکتی ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کشتی میں کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کا حکم دیا اور اگر ایسے نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر نماز پڑھنے کی بھی اجازت دی ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وقد علقه، ووصله مسلم وأبو
عوانة) .
إسناده: حدثنا أحمد بن صالح: ثنا ابن وهب: أخبرني يونس عن ابن
شهاب عن سالم.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط البخاري؛ وقد علقه كما يأتي.
والحديث أخرجه مسلم (2/150) ، وأبو عوانة (2/342) ، والنسائي (1/85
و 122) ، والطحاوي (1/249) ، والبيهقي (2/6 و 491) من طرق عن عبد الله بن
وهب... به.
وعلقه البخاري (2/40) فقال: وقال الليث: حدثني يونس... به