قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن النسائي: كِتَابُ آدَابِ الْقُضَاةِ (بَابُ مَصِيرِ الْحَاكِمِ إِلَى رَعِيَّتِهِ لِلصُّلْحِ بَيْنَهُمْ)

حکم : صحیح 

5413. أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ قَالَ سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ يَقُولُ وَقَعَ بَيْنَ حَيَّيْنِ مِنْ الْأَنْصَارِ كَلَامٌ حَتَّى تَرَامَوْا بِالْحِجَارَةِ فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ فَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَأَذَّنَ بِلَالٌ وَانْتُظِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحْتُبِسَ فَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فَلَمَّا رَآهُ النَّاسُ صَفَّحُوا وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لَا يَلْتَفِتُ فِي الصَّلَاةِ فَلَمَّا سَمِعَ تَصْفِيحَهُمْ الْتَفَتَ فَإِذَا هُوَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَادَ أَنْ يَتَأَخَّرَ فَأَشَارَ إِلَيْهِ أَنْ اثْبُتْ فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَعْنِي يَدَيْهِ ثُمَّ نَكَصَ الْقَهْقَرَى وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ قَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَثْبُتَ قَالَ مَا كَانَ اللَّهُ لِيَرَى ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ بَيْنَ يَدَيْ نَبِيِّهِ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ مَا لَكُمْ إِذَا نَابَكُمْ شَيْءٌ فِي صَلَاتِكُمْ صَفَّحْتُمْ إِنَّ ذَلِكَ لِلنِّسَاءِ مَنْ نَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَقُلْ سُبْحَانَ اللَّهِ

مترجم:

5413.

حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ فرماتےہیں کہ انصار کے دو قبیلوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا حتیٰ کہ انہوں نے ایک دوسرے پر پتھر وغیرہ بھی پھینکے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ ان کے درمیان صلح کروانے کے لیے تشریف لے گئے۔ اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا تو حضرت بلال ؓ نے کہی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ کا انتظار کیا گیا لیکن آپ کو زیادہ دیر ہوگئی تو حضرت بلال ؓ نے اقامت کہی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ آگے بڑھے (جماعت شروع کرادی) ۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ بھی تشریف لے آئے جبکہ حضرت ابوبکر ؓ نماز میں ادھر توجہ نہیں کرتے تھے لیکن جب انہوں نے بہت زیادہ تالیوں کی آواز سنی تو متوجہ ہوئے۔ اچانک ان کی نظر رسول اللہ ﷺ پر پڑی۔ انہوں نے پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا۔ آپ نے اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ ٹھہرے رہو۔ حضرت ابوبکر ؓ نے (نبیٔ اکرم ﷺ کی اس عظیم ترین عزت افزائی پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے ہوئے) اپنے ہاتھ اٹھائے، پھر الٹے پاؤں پیچھے آگئے۔ رسول اللہ ﷺ آگے بڑھے اور نماز پڑھائی۔ جب رسول اللہ ﷺ نے نماز مکمل فرمائی تو (حضرت ابوبکر ؓ سے) فرمایا: ”تم اپنی جگہ کیوں نہ کھڑے رہے؟“ حضرت ابوبکر ؓ سے) فرمایا: ”تم اپنی جگہ کیوں نہ کھڑے رہے؟“ حضرت ابوبکر ؓ نے کہا: یہ مناسب نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ ابو قحافہ کے بیٹے کو اپنے نبیٔ اکرم ﷺ کے آگے کھڑا دیکھے۔ پھر رسول اللہ ﷺ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”کیا وجہ ہے جب تمہیں نماز میں کوئی مشکل پیش آتی ہے تو تم تالیاں بجانے لگ جاتے ہو! یہ تو عورتوں کے لیے ہے۔ جس مرد کو نماز میں کوئی مشکل پیش آئے تو وہ سبحان اللہ کہے۔“