تشریح:
(1) انصار یہ سمجھتے تھے کہ چونکہ مدینہ منورہ اصلاً ہماری بستی ہے، لہٰذا امیر (رسول اللہ کا جانشین) ہم میں سے ہونا چاہیے لیکن یہ صرف شہر مدینہ کے امیر کے انتخاب کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ پوری مملکت اسلامیہ کے امیر کا مسئلہ تھا۔ ظاہر ہے کہ مملکت اسلامیہ کا امیر ایسا شخص ہونا چاہیے تھا جسے وسیع تر پیمانے پر سیاسی حمایت حاصل ہو اور اس کا تعلق ایسے قبیلے سے ہو جسے شہرت، سیادت اور عزت کم از کم عربوں کی حد تک ضرور حاصل ہو کیونکہ اس وقت اسلام عربوں ہی تک محدود تھا اور اس دور میں قریش کے علاوہ کوئی قبیلہ ان شرائط پر پورا نہ اترتا تھا۔ بیت اللہ کے متولی ہونے کی وجہ سے انھیں پورے عرب میں بے پناہ عزت و احترام حاصل تھا۔ ان کی سیادت کو سب عرب مانتے تھے اور وہ پورے عرب میں مشہور و معروف تھے۔ یہ چیزیں انصار کو حاصل نہ تھیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی یا رہنمائی فرما دی تھی: [الأئمةُ من قريشٍ] ”خلفاء قریش سے ہوں گے۔“ (مسند أحمد: ۱۲۹/۳، و مسند أبي داود الطیالسي، حدیث: ۲۲۴۷) اور قریش میں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جو مقام و مرتبہ حاصل تھا، وہ کسی اور کو نہ تھا۔ سب سے پہلے اسلام لانے والے، نبوت سے قبل بھی آپ کے دوست، تادم وفات آپ کے ساتھی اور مشیر، آپ کے سسر، ہجرت میں آپ کے رفیق، عشرۂ مبشرہ میں سے اولین شخصیت، تقویٰ و سخاوت اور دور اندیشی میں تمام صحابہ سے فائق اور سب کے نزدیک محترم و مکرم، انھی وجوہات کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری کے دنوں میں انھیں امامت کے لیے مقرر فرمایا۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: ۶۷۸، و صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: ۴۱۸) یہ واضح اشارہ تھا کہ آئندہ امیر اور خلیفہ بھی ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) ہی ہوں گے کیونکہ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ امیر کوئی اور ہو اور جماعت کوئی اور کرائے۔ انصار اس طرف توجہ نہ کرسکے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے توجہ دلانے سے انصار کے ذہن میں یہ نکتہ آگیا اور مسئلہ حل ہوگیا۔
(2) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امامت کے لیے مقرر فرمانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم و فضل ہی کو امامت جیسے جلیل القدر منصب پر فائز کیا جانا چاہیے، نیز أعلم کو اقرا پر ترجیح دینا جائز ہے جب دیگر مقاصد مدنظر ہوں کیونکہ أقرا تو صحیح حدیث کی رو سے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تھے۔ (جامع الترمذي، المناقب، حدیث: ۳۷۹۰، ۳۷۹۱، و سنن ابن ماجه، السنة، حدیث: ۱۵۴) جبکہ مطلقاً أعلم کو أقرا پر مقدم کرنے کا استدلال درست نہیں کیونکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تقدیم کا مقصد صرف نماز کی امامت نہ تھا بلکہ یہ امامت کبریٰ، یعنی ان کی خلافت کی طرف بھی اشارہ تھا۔ واللہ أعلم۔