تشریح:
(1) [صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ] یعنی تم بھی ان عورتوں کی طرح اصل مقصد چھپائے ہوئے ظاہر کچھ اور کر رہی ہو۔ [صَوَاحِبَاتُ ] سے مراد وہ عورتیں ہیں جنھوں نے مکر کے ساتھ ہاتھ کاٹے تھے۔ ہاتھ کاٹنے والی عورتیں یوسف علیہ السلام کو رجھانے (مائل کرنے) کا مقصد رکھتی تھیں مگر بظاہر امرأۃ العزیز (عزیز مصر کی بیوی) کو شرافت کا درس دے رہی تھیں۔
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افاقہ محسوس فرمایا۔ ظاہر الفاظ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ شاید جس نماز میں ابوبکر کو نماز پڑھانے کا حکم دیا گیا تھا اسی نماز کے دوران میں آپ نے افاقہ محسوس فرمایا اور مسجد کو تشریف لے گئے مگر حقیقتاً ایسا نہیں ہے بلکہ یہ کئی دن بعد کی بات ہے۔ گویا آپ کے حکم کے تحت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جماعت کراتے رہے۔ ایک دن جماعت شروع کی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو افاقہ محسوس ہوا اور آپ تشریف لے گئے۔ یاد رہے کہ یہ جماعت جو آپ نے اس طرح ادا فرمائی ظہر کی نماز تھی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحیح البخاري الأذان حدیث: ۶۸۷)
(3) بیٹھ کر نماز پڑھانے والے امام کے پیچھے مقتدی کس طرح نماز پڑھیں؟ اس کی تفصیلی بحث پچھلی روایت میں گزر چکی ہے۔ دیکھیے حدیث: ۸۳۳۔