اردو حاشیہ:
(1) چھینک مارنے اور رکوع سے سر اٹھانے کا وقت ایک ہی تھا جیسا کہ صحیح بخاری میں اس کی صراحت ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: ۷۹۹)
(2) چھینک بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ اس سے دماغ کھل جاتا ہے۔ طبیعت چست ہو جاتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اس کے لیے صرف الحمدللہ کہنا کافی ہے۔ مزید اضافہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں جیسے کہ اس روایت میں ہے۔
(3) پہلی دفعہ جواب نہ دینا، اس ڈر کی بنا پر تھا کہ شاید میں نے غلطی کی ہے۔
(4) اس روایت سے استدلال کیا جاتا ہے کہ نماز کے دوران میں چھینک آنے پر جہراً الحمدللہ کہنا بھی درست ہے۔ واللہ أعلم۔
(5) جب امام اپنے مقتدیوں میں کوئی نئی چیز محسوس کرے تو اس کے متعلق دریافت کرے اور مقتدیوں کو حقیقت حال سے آگاہ کرے۔
(6) نماز میں چھینک مارنے والا الحمدللہ کہے تو اس کا جواب نہیں دیا جائے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ میں سے کسی نے اس آدمی کا جواب نہیں دیا تھا۔ اگر کوئی شخص جواب دے گا تو اس کی نمازباطل ہو جائے گی۔ واللہ اعلم۔
(7) اس حدیث مبارکہ سے مذکورہ ذکر کی فضیلت بھی واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ ذکر بہت پسند ہے۔