Sunan-nasai:
The Book of The At-Tatbiq (Clasping One's Hands Together)
(Chapter: The Qunut after bowing)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1070.
حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ایک مہینہ رکوع کے بعد قنوت فرمائی۔ آپ رعل، ذکوان اور عصیہ قبائل پر بددعا کرتے تھے۔ (کیونکہ) انھوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی معصیت (نافرمانی) کی تھی۔
تشریح:
(1) ان کے ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دھوکا کرکے کچھ مبلغین حاصل کیے جو سب قرآن کے قاری تھے اور انھیں اپنے علاقے میں لے جاکر ان قبائل سے قتل کرا دیا۔ ایک دوسرے حادثے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دس صحابہ شہید کر دیے گئے۔ یہ واقعات جنگ احد کے بعد قریب ہی پیش آئے تھے۔ جنگ احد میں بھی مسلمانوں کا خاصا نقصان ہوا تھا۔ ان مسلسل جانی نقصانات سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم غمگین ہوئے تو آپ نے قنوت نازلہ کا اہتمام فرمایا؎ (نازلہ عربی میں مصیبت کو کہتے ہیں اور قنوت وہ دعا جو کھڑے ہوکر کی جائے۔) آپ مختلف نمازوں میں آخری رکعت میں رکوع کے بعد ہاتھ اٹھا کر بلند آواز سے دعا مانگتے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم بھی شریک دعا ہوتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض مشرکین مکہ، دھوکا دینے والے قبائل اور قاتلین قراء کے نام لے کر بددعا فرماتے تھے۔ ایک مہینے تک یہ عمل جاری رہا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ مخصوص حالات میں کسی شخص یا قبیلے کا نام لے کر بددعا کرنا جائز ہے، تاہم اس سے پہلے جنگ احد کے بعد آپ نے قنوت نازلہ کا اہتمام فرمایا جس میں آپ کا سرزخمی ہوگیا تھا اور ایک رباعی دانت ٹوٹ گیا تھا، اس موقع پر آپ کو ان کی بابت قنوت سے روک دیا گیا۔ یہ دو الگ الگ واقعات اور الگ الگ قنوت ہیں۔ مختلف قبائل کا نام لے کر جو قنوت کی، وہ آیت: ﴿لَيْسَ لَكَ مِنَ الأمْرِ شَيْءٌ﴾(آل عمران ۱۲۸:۳) کے نزول کے بعد کا واقعہ ہے، اس لیے حسب ضرورت کسی شخص یا قبیلے کا نام لے کر قنوت نازلہ کرناجائز ہے۔ لیکن کبھی کبھار، نہ کہ ہمیشہ۔ امام حنیفہ رحمہ اللہ کسی معین شخص یا قبیلے کا نام لے کر اس کے حق میں یا اس کے خلاف دعا کرنے سے منع کرتے ہیں۔ یہ حدیث ان کے موقف کی تائید نہیں کرتی۔ امام شافعی رحمہ اللہ صبح کی نماز میں ہمیشہ قنوت کے قائل ہیں مگر یہ صحابہ میں مختلف فیہ مسئلہ رہا ہے، لہٰذا ایک آدھی روایت کی بنا پر اس پر دوام مناسب نہیں ہے، جب کہ اس کے خلاف بھی روایات موجود ہیں۔ جمہور اہل علم دوام کو غلط سمجھتے ہیں۔ صرف کسی اہم موقع پر جب کوئی خصوصی مصیبت نازل ہو، رکوع کے بعد فجر یا کسی اور نماز میں قنوت کرلی جائے۔ دلائل کو جمع کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ جب دلائل متعارض معلوم ہوں تو درمیانی راہ نکالنی چاہیے نہ کہ کسی ایک جانب کو لازم کر لیا جائے۔ باقی رہی قنوت وتر تو اس کا ذکر وتر کی بحث میں مناسب ہے۔ ان شاء اللہ وہیں آئے گا۔ (2) امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نماز میں غیر قرآن الفاظ کے ساتھ دعا کرنا ممنوع قرار دیتے ہیں۔ حدیث ان کے موقف کی تردید کرتی ہے۔ (3) کفار پر لعنت بھیجنا اور ان کے خلاف بددعا کرنا جائز ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت : وفيه نظر فإن هلال بن خباب لم يخرج له البخاري ثم إن فيه مقالا وقد قال النووي في " المجموع " ( 3 / 502 ) : " إسناده حسن أو صحيح " . قلت : والصواب أنه حسن لحال هلال . ( تنبيه ) وهذه الأحاديث كلها في القنوت في المكتوبة في النازلة والمؤلف استدل بها على أن القنوت في الوتر بعد الركوع وما ذلك إلا من طريق قياس الوتر على الفريضة كما صرح بذلك بعض الشافعين منهم البيهقي في سنده
( 3 / 39 ) بل هو المنقول عن الإمام أحمد ففي ( قيام الليل ) ( 133 ) لابن نصر : " وسئل أحمد رحمه الله عن القنوت في الوتر قبل الركوع أو بعده ؟ وهل ترفع الأيدي في الدعاء " في الوتر ؟ فقال : القنوت بعد الركوع ويرفع يديه وذلك على قياس فعل النبي ( صلى الله عليه وسلم ) في الغداة " . قلت : وفي صحة هذا القياس نظر عندي وذلك أنه قد صح عنه صلى الله عليه وآله وسلم أنه كان يقنت في الوتر قبل الركوع كما يأتي بعد حديث ويشهد له أثار كثيرة عن كبار الصحابة كما سنحققه في الحديث الآتي بإذن الله تعالى " وغالب الظن أن الحديث لم يصح عند الإمام أحمد رحمه الله فقد أعله بعضهم كما يأتي ولولا ذلك لم يلجأ الإمام إلى القياس فإنه من أبغض الناس له حين معارضته للسنة ولكن الحديث عندنا صحيح كما سيأتي بيانه فهو العمدة في الباب
حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ایک مہینہ رکوع کے بعد قنوت فرمائی۔ آپ رعل، ذکوان اور عصیہ قبائل پر بددعا کرتے تھے۔ (کیونکہ) انھوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی معصیت (نافرمانی) کی تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) ان کے ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دھوکا کرکے کچھ مبلغین حاصل کیے جو سب قرآن کے قاری تھے اور انھیں اپنے علاقے میں لے جاکر ان قبائل سے قتل کرا دیا۔ ایک دوسرے حادثے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دس صحابہ شہید کر دیے گئے۔ یہ واقعات جنگ احد کے بعد قریب ہی پیش آئے تھے۔ جنگ احد میں بھی مسلمانوں کا خاصا نقصان ہوا تھا۔ ان مسلسل جانی نقصانات سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم غمگین ہوئے تو آپ نے قنوت نازلہ کا اہتمام فرمایا؎ (نازلہ عربی میں مصیبت کو کہتے ہیں اور قنوت وہ دعا جو کھڑے ہوکر کی جائے۔) آپ مختلف نمازوں میں آخری رکعت میں رکوع کے بعد ہاتھ اٹھا کر بلند آواز سے دعا مانگتے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم بھی شریک دعا ہوتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض مشرکین مکہ، دھوکا دینے والے قبائل اور قاتلین قراء کے نام لے کر بددعا فرماتے تھے۔ ایک مہینے تک یہ عمل جاری رہا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ مخصوص حالات میں کسی شخص یا قبیلے کا نام لے کر بددعا کرنا جائز ہے، تاہم اس سے پہلے جنگ احد کے بعد آپ نے قنوت نازلہ کا اہتمام فرمایا جس میں آپ کا سرزخمی ہوگیا تھا اور ایک رباعی دانت ٹوٹ گیا تھا، اس موقع پر آپ کو ان کی بابت قنوت سے روک دیا گیا۔ یہ دو الگ الگ واقعات اور الگ الگ قنوت ہیں۔ مختلف قبائل کا نام لے کر جو قنوت کی، وہ آیت: ﴿لَيْسَ لَكَ مِنَ الأمْرِ شَيْءٌ﴾(آل عمران ۱۲۸:۳) کے نزول کے بعد کا واقعہ ہے، اس لیے حسب ضرورت کسی شخص یا قبیلے کا نام لے کر قنوت نازلہ کرناجائز ہے۔ لیکن کبھی کبھار، نہ کہ ہمیشہ۔ امام حنیفہ رحمہ اللہ کسی معین شخص یا قبیلے کا نام لے کر اس کے حق میں یا اس کے خلاف دعا کرنے سے منع کرتے ہیں۔ یہ حدیث ان کے موقف کی تائید نہیں کرتی۔ امام شافعی رحمہ اللہ صبح کی نماز میں ہمیشہ قنوت کے قائل ہیں مگر یہ صحابہ میں مختلف فیہ مسئلہ رہا ہے، لہٰذا ایک آدھی روایت کی بنا پر اس پر دوام مناسب نہیں ہے، جب کہ اس کے خلاف بھی روایات موجود ہیں۔ جمہور اہل علم دوام کو غلط سمجھتے ہیں۔ صرف کسی اہم موقع پر جب کوئی خصوصی مصیبت نازل ہو، رکوع کے بعد فجر یا کسی اور نماز میں قنوت کرلی جائے۔ دلائل کو جمع کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ جب دلائل متعارض معلوم ہوں تو درمیانی راہ نکالنی چاہیے نہ کہ کسی ایک جانب کو لازم کر لیا جائے۔ باقی رہی قنوت وتر تو اس کا ذکر وتر کی بحث میں مناسب ہے۔ ان شاء اللہ وہیں آئے گا۔ (2) امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نماز میں غیر قرآن الفاظ کے ساتھ دعا کرنا ممنوع قرار دیتے ہیں۔ حدیث ان کے موقف کی تردید کرتی ہے۔ (3) کفار پر لعنت بھیجنا اور ان کے خلاف بددعا کرنا جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مہینے تک رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھی، آپ اس میں رعل، ذکوان اور عصیہ نامی قبائل ۱؎ پر جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تھی، بد دعا کرتے رہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : رعل، ذکوان اور عصیہ تینوں قبائل کے نام ہیں، جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قراء کو دھوکہ سے قتل کر دیا تھا، آپ نے ان پر ایک ماہ تک قنوت نازلہ پڑھی تھی، جو رکوع کے بعد پڑھی جاتی ہے، یہ وتر والی قنوت نہیں تھی، وتر والی قنوت میں تو افضل یہ ہے کہ رکوع سے پہلے پڑھی جائے، جائز رکوع کے بعد بھی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Anas bin Malik (RA) said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) prayed (saying the) Qunut after bowing for a month, supplicating against Ri'l, Dhakwan and 'Usayyah who had disobeyed Allah and His Messenger". (Sahih).