Sunan-nasai:
The Book of The At-Tatbiq (Clasping One's Hands Together)
(Chapter: The Qunut during the Subh prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1073.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب صبح کی نماز کی دوسری رکعت کے رکوع سے سر اٹھاتے تو فرماتے: ”اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابو ربیعہ اور مکہ میں دوسرے کمزور اور مظلوم مسلمانوں کو نجات دے۔ اے اللہ! مضر (قریش) پر اپنا عذاب سخت فرما اور اس عذاب کو قحط کی صورت میں نازل فرما جو یوسف ؑ کے دور کے قحط کی طرح ہو۔“
تشریح:
(1) الفاظ سے صراحتاً معلوم ہوتا ہے کہ یہ قنوت نازلہ ہے جو آپ ہمیشہ نہیں فرماتے تھے۔ (2) یوسف علیہ السلام کے قحط سے تشبیہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ کئی سال جاری رہا اور ایسا ہی ہوا، ان کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا قبول ہوئی، ان پر قحط سالی آئی اور مضر والے کئی برس تک قحط کی بلا میں گرفتار رہے یہاں تک کہ وہ ہڈیاں، چمڑے اور مردار تک کھانے لگے۔ پھر جب قریش اس قحط سے عاجز آگئے تو ان کا نمائندہ اور سردار ابوسفیان مدینہ منورہ حاضر ہوا اور قحط کے خاتمے کے لیے دعا کی اپیل کی تو نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مشروط طور پر قحط کے خاتمے کی دعا فرما دی اور قحط دور ہوگیا۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الاستسقاء، حدیث: ۱۰۰۷) (3) صبح کی نماز میں قنوت نازلہ جائز ہے۔ (4) قنوت نازلہ رکوع کے بعد ہوگی۔ (5) کسی کا نام لے کے دعا یا بددعا کرنے سے نماز باطل نہیں ہوتی جیسا کہ احناف کا موقف ہے۔ (6) قنوت نازلہ بلند آواز سے کرنا مستحب ہے۔ صحیح بخاری میں صراحت ہے کہ آپ بلند آواز سے قنوت کراتے تھے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: ۴۵۶۰) نیز سنن أبي داود کی روایت میں ہے: [يُؤَمِّنُ مَنخَلفَه] ”آپ کے پیچھے والے آمین کہتے تھے۔“ (سنن أبي داود، الوتر، حدیث: ۱۴۴۳)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب صبح کی نماز کی دوسری رکعت کے رکوع سے سر اٹھاتے تو فرماتے: ”اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابو ربیعہ اور مکہ میں دوسرے کمزور اور مظلوم مسلمانوں کو نجات دے۔ اے اللہ! مضر (قریش) پر اپنا عذاب سخت فرما اور اس عذاب کو قحط کی صورت میں نازل فرما جو یوسف ؑ کے دور کے قحط کی طرح ہو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) الفاظ سے صراحتاً معلوم ہوتا ہے کہ یہ قنوت نازلہ ہے جو آپ ہمیشہ نہیں فرماتے تھے۔ (2) یوسف علیہ السلام کے قحط سے تشبیہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ کئی سال جاری رہا اور ایسا ہی ہوا، ان کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا قبول ہوئی، ان پر قحط سالی آئی اور مضر والے کئی برس تک قحط کی بلا میں گرفتار رہے یہاں تک کہ وہ ہڈیاں، چمڑے اور مردار تک کھانے لگے۔ پھر جب قریش اس قحط سے عاجز آگئے تو ان کا نمائندہ اور سردار ابوسفیان مدینہ منورہ حاضر ہوا اور قحط کے خاتمے کے لیے دعا کی اپیل کی تو نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مشروط طور پر قحط کے خاتمے کی دعا فرما دی اور قحط دور ہوگیا۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الاستسقاء، حدیث: ۱۰۰۷) (3) صبح کی نماز میں قنوت نازلہ جائز ہے۔ (4) قنوت نازلہ رکوع کے بعد ہوگی۔ (5) کسی کا نام لے کے دعا یا بددعا کرنے سے نماز باطل نہیں ہوتی جیسا کہ احناف کا موقف ہے۔ (6) قنوت نازلہ بلند آواز سے کرنا مستحب ہے۔ صحیح بخاری میں صراحت ہے کہ آپ بلند آواز سے قنوت کراتے تھے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: ۴۵۶۰) نیز سنن أبي داود کی روایت میں ہے: [يُؤَمِّنُ مَنخَلفَه] ”آپ کے پیچھے والے آمین کہتے تھے۔“ (سنن أبي داود، الوتر، حدیث: ۱۴۴۳)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے فجر میں دوسری رکعت سے اپنا سر اٹھایا تو آپ نے دعا کی: ”اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مکہ کے کمزور لوگوں کو دشمنوں کے چنگل سے نجات دے، اے اللہ! قبیلہ مضر پر اپنی پکڑ سخت کر دے، اور ان کے اوپر یوسف ؑ (کی قوم) جیسا سا قحط مسلط کر دے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah (RA) said: "When the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) raised his head in the second rak'ah of the subh prayer, he said: 'O Allah, save Al-Walid bin Al-Walid and Salamah bin Hisham and 'Ayyshah bin Abi Rabi'ah and those who are weak and oppressed in Makkah. O Allah, intensify Your punishment in Mudar and give them years (of famine) like the years of Yusuf'".