Sunan-nasai:
The Book of The At-Tatbiq (Clasping One's Hands Together)
(Chapter: Cooling the pebbles in order to prostrate on them)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1081.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھا کرتے تھے تو میں اپنی مٹھی میں کچھ کنکریاں پکڑ لیتا تھا تاکہ انھیں ٹھنڈا کروں۔ پھر (جب ہاتھ جلنے لگتا تو) انھیں دوسری ہتھیلی میں منتقل کر لیتا تھا۔ پھر جب میں سجدہ کرتا تو انھیں اپنے ماتھے کے نیچے رکھ لیتا۔
تشریح:
(1) زمین گرم ہوتی تھی۔ براہ راست شدید گرم زمین پر ماتھا رکھنا انتہائی مشکل تھا، لہٰذا نسبتاً ٹھنڈی کنکریاں بچھا کر ان پر ماتھا رکھ لیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سجدہ بھی لمبا ہوتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے نماز یا نمازی کی مصلحت کے لیے نماز کے علاوہ کوئی فعل کرنا پڑے تو کوئی حرج نہیں۔ فعل کی حد بندی ممکن نہیں ہے، البتہ ایسا مشغول نہ ہو کہ دیکھنے والا اسے نماز سے خارج تصور کرے۔ (2) یہ بھی ثابت ہوا کہ نماز ظہر جلدی ادا کرنی چاہیے اور اسے اس قدر لیٹ نہیں کرنا چاہیے کہ زمین ٹھنڈی ہونے کا انتظار کیا جائے۔ اس طرح تو اس کا وقت نکل جائے گا۔ حدیث میں جو ابراد ظہر کا حکم ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ زوال کے بعد تھوڑا بہت انتظار کر لیا جائے تاکہ عین زوال شمس کے وقت دھوپ کی جو شدت اور تمازت ہوتی ہے، اس میں قدرے کمی آ جائے اور سائے ڈھل جائیں تاکہ لوگ آسانی کے ساتھ مسجد میں آسکیں، ورنہ گرمی اور زمین کی تپش تو عصر کے وقت بھی ختم نہیں ہوتی۔ (3) دوران نماز میں تکلیف اور ضرر کی تلافی کی جا سکتی ہے، اس طرح کے عمل سے نماز باطل نہیں ہوتی۔ (4) نماز کا اہتمام ضروری ہے اگرچہ اس کے لیے مشقت برداشت کرنی پڑے۔ (5) ان تمام سہولیات و مراعات کو زیر استعمال لایا جا سکتا ہے جو خشوع میں اضافے کا باعث ہوں۔ (6) کسی صحابی کا یہ کہنا کہ ”ہم ایسے کیا کرتے تھے“ مرفوع کے حکم میں ہے۔ لیکن یہاں اس سے بھی قوی قرینہ موجود ہے۔ وہ یہ کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازیوں کو اپنے پیچھے سے بھی دیکھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں منع نہیں فرمایا۔ اس اعتبار سے اس کا مرفوع ہونا زیادہ قوی ہے۔ واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وقد أخرجه في "صحيحه "
عن شيخ المصنف بإسناده، وأخرجه أبو عوانة في "صحيحه " من طريق المؤلف،
ورواه مسلم بتمامه، والترمذي بعضه، وقال: " حديث حسن صحيح ") .
إسناده: حدثنا حفص بن عمر: نا شعبة عن أبي المنهال عن أبي برزة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط البخاري؛ وحفص بن عمر: هو ابن
الحارث الحَوْضِيُّ.
والحديث أخرجه البيهقي (1/436) ، وأبو عوانة في "صحيحه " (1/366) من
طريق المؤلف.
وأخرجه البخاري (2/17) عن هذا الشيخ... بهذا الإسناد.
وأخرجه الطيالسي (رقم " 92) : حدثنا شعبة... به.
وأخرجه مسلم (2/121) ، وأبو عوانة أيضا، والنسائي (1/86) من طرق
أخرى عن شعبة... به.
وأخرجه أحمد (4/425) : ثنا حجاج ثنا شعبة... به، وفيه:
والمغرب- قال سيار: نسيتها-. وفي آخره:
قال سيار: لا أدري في إحدى الركعتين أو في كلتيهما؟!
وقد تابعه عوف بن أبي جميلة عن أبي المنهال: أخرجه البخاري (2/21) ،
والبيهقي (1/450 و 454) ، وأحمد (4/420، 423) من طرق عنه.
وروى منه ابن ماجه (1/231) ، والطحاوي (1/109) - وقت الظهر-،
والترمذي (1/313) قوله:
كان يكره النوم قبل العشاء والحديث بعدها. وقال:
" حديث حسن صحيح ".
وتابعه حماد بن سلمة عن سَيَّار بن سلامة- وهو أبو المنهال-... به
مختصراً؛ بلفط:
كان يؤخر العشاء الآخرة إلى ثلث الليل، وكان يكره النوم قبلها والحديث
بعدها، وكان يقرأ في الفجر ما بين المئة إلى الستين، وكان ينصرف- حين ينصرف-
وبعضنا يعرف وجه بعض.
أخرجه أحمد (4/424) ، وإسناده صحيح على شرط مسلم.
وتابعه على الجملة الأخيرة منه: معتمر قال: أنبأًني أبي عن أبي المنهال...
به
أخرجه أحمد أيضا (4/123) ، وسنده صحيح على شرطهما.
3- باب وقت صلاة الظهر
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھا کرتے تھے تو میں اپنی مٹھی میں کچھ کنکریاں پکڑ لیتا تھا تاکہ انھیں ٹھنڈا کروں۔ پھر (جب ہاتھ جلنے لگتا تو) انھیں دوسری ہتھیلی میں منتقل کر لیتا تھا۔ پھر جب میں سجدہ کرتا تو انھیں اپنے ماتھے کے نیچے رکھ لیتا۔
حدیث حاشیہ:
(1) زمین گرم ہوتی تھی۔ براہ راست شدید گرم زمین پر ماتھا رکھنا انتہائی مشکل تھا، لہٰذا نسبتاً ٹھنڈی کنکریاں بچھا کر ان پر ماتھا رکھ لیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سجدہ بھی لمبا ہوتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے نماز یا نمازی کی مصلحت کے لیے نماز کے علاوہ کوئی فعل کرنا پڑے تو کوئی حرج نہیں۔ فعل کی حد بندی ممکن نہیں ہے، البتہ ایسا مشغول نہ ہو کہ دیکھنے والا اسے نماز سے خارج تصور کرے۔ (2) یہ بھی ثابت ہوا کہ نماز ظہر جلدی ادا کرنی چاہیے اور اسے اس قدر لیٹ نہیں کرنا چاہیے کہ زمین ٹھنڈی ہونے کا انتظار کیا جائے۔ اس طرح تو اس کا وقت نکل جائے گا۔ حدیث میں جو ابراد ظہر کا حکم ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ زوال کے بعد تھوڑا بہت انتظار کر لیا جائے تاکہ عین زوال شمس کے وقت دھوپ کی جو شدت اور تمازت ہوتی ہے، اس میں قدرے کمی آ جائے اور سائے ڈھل جائیں تاکہ لوگ آسانی کے ساتھ مسجد میں آسکیں، ورنہ گرمی اور زمین کی تپش تو عصر کے وقت بھی ختم نہیں ہوتی۔ (3) دوران نماز میں تکلیف اور ضرر کی تلافی کی جا سکتی ہے، اس طرح کے عمل سے نماز باطل نہیں ہوتی۔ (4) نماز کا اہتمام ضروری ہے اگرچہ اس کے لیے مشقت برداشت کرنی پڑے۔ (5) ان تمام سہولیات و مراعات کو زیر استعمال لایا جا سکتا ہے جو خشوع میں اضافے کا باعث ہوں۔ (6) کسی صحابی کا یہ کہنا کہ ”ہم ایسے کیا کرتے تھے“ مرفوع کے حکم میں ہے۔ لیکن یہاں اس سے بھی قوی قرینہ موجود ہے۔ وہ یہ کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازیوں کو اپنے پیچھے سے بھی دیکھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں منع نہیں فرمایا۔ اس اعتبار سے اس کا مرفوع ہونا زیادہ قوی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ ہم ظہر کی نماز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پڑھتے تھے، میں نماز میں ہی ایک مٹھی کنکری اپنے ہاتھ میں لے لیتا، اسے ٹھنڈا کرتا، پھر اسے دوسرے ہاتھ میں پلٹ دیتا، تو جب سجدہ کرتا تو اسے اپنی پیشانی کے نیچے رکھ لیتا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Jabir bin 'Abdullah (RA) said: "We used to pray Zuhr with the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) and I would take a handful of pebbles in my hand to cool them down, then I would pass them from one hand to the other, and when I prostrated I would put them down to lay my forehead on them".