Sunan-nasai:
Description Of Wudu'
(Chapter: Haw To Wipe Over The Imamah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
109.
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ دو باتیں ایسی ہیں جن کی بابت میں کبھی کسی سے نہیں پوچھوں گا، جب کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے ان کا خود مشاہدہ کیا ہے۔ ایک تو یہ کہ ہم آپ کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو آپ قضائے حاجت کے لیے گئے، پھر واپس تشریف لا کر وضو کیا اور اپنی پیشانی اور پگڑی کے دونوں اطراف کا مسح فرمایا اور اپنے موزوں پر مسح فرمایا۔ انھوں نے کہا: (دوسری بات) امام کا اپنی رعیت میں سے کسی آدمی کے پیچھے (اس کی اقتدا میں) نماز پڑھنا۔ تو میں نے اس کا بھی اللہ کے رسول ﷺ سےمشاہدہ کیا۔ آپ ایک سفر میں تھے کہ نماز کا وقت ہوگیا اور نبی ﷺ کو (قضائے حاجت سے واپسی میں) دیر ہو گئی۔ صحابہ نے جماعت کھڑی کر لی اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کو آگے کر لیا۔ انھوں نے نماز پڑھائی۔ (اس دوران میں) اللہ کے رسول ﷺ بھی تشریف لے آئے اور آپ نے ابن عوف ؓ کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب عبدالرحمٰن بن عوف نے سلام پھیرا تو نبی ﷺ اٹھے اور بقیہ نماز ادا کی۔
تشریح:
(1) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سر کے مسح کے متعلق تین قسم کی احادیث ثابت ہیں۔ ان میں سے ایک یہ حدیث ہے جس میں پیشانی کےساتھ پگڑی پر مسح کرنے کی بھی وضاحت ہے، جس سے پتا چلا کہ یہ کیفیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور یہی امام نسائی رحمہ اللہ کی غرض معلوم ہوتی ہے۔ صرف پیشانی اور اس کے بقدر سر کا مسح کرنا مشروع نہیں ہے اگرچہ اس روایت سے احناف نے دلیل لی ہے کہ صرف پیشانی پر یا پیشانی کے بقدر (سر کا چوتھائی حصہ) مسح فرض ہے، حالانکہ اگر ایسا ہوتا تو پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پگڑی پر مسح کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ صرف پگڑی پر مسح کر لیا جائے، اور یہ جائز ہے جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زادالمعاد: (۱۹۴/۱) میں ذکر کیا ہے۔ اور گزشتہ حدیث (نمبر ۱۰۴) کے فوائد میں وضاحت کی گئی ہے۔ اور تیسرا پورے سرے کا مسح کرنا جبکہ سر پر پگڑی نہ ہو۔ یہ تینوں طریقے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ (2) اس سے یہ بھی پتا چلا کہ مقتدی امام کو جس حال میں پائے، امام کے ساتھ مل جائے اور جو نماز گزر چکی ہو، وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کرے۔ (3) جب امام راتب کسی بنا پر اول وقت سے دیر کر دے تو کوئی دوسرا آدمی اس کی جگہ نماز پڑھا سکتا ہے۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ دو باتیں ایسی ہیں جن کی بابت میں کبھی کسی سے نہیں پوچھوں گا، جب کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے ان کا خود مشاہدہ کیا ہے۔ ایک تو یہ کہ ہم آپ کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو آپ قضائے حاجت کے لیے گئے، پھر واپس تشریف لا کر وضو کیا اور اپنی پیشانی اور پگڑی کے دونوں اطراف کا مسح فرمایا اور اپنے موزوں پر مسح فرمایا۔ انھوں نے کہا: (دوسری بات) امام کا اپنی رعیت میں سے کسی آدمی کے پیچھے (اس کی اقتدا میں) نماز پڑھنا۔ تو میں نے اس کا بھی اللہ کے رسول ﷺ سےمشاہدہ کیا۔ آپ ایک سفر میں تھے کہ نماز کا وقت ہوگیا اور نبی ﷺ کو (قضائے حاجت سے واپسی میں) دیر ہو گئی۔ صحابہ نے جماعت کھڑی کر لی اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کو آگے کر لیا۔ انھوں نے نماز پڑھائی۔ (اس دوران میں) اللہ کے رسول ﷺ بھی تشریف لے آئے اور آپ نے ابن عوف ؓ کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب عبدالرحمٰن بن عوف نے سلام پھیرا تو نبی ﷺ اٹھے اور بقیہ نماز ادا کی۔
حدیث حاشیہ:
(1) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سر کے مسح کے متعلق تین قسم کی احادیث ثابت ہیں۔ ان میں سے ایک یہ حدیث ہے جس میں پیشانی کےساتھ پگڑی پر مسح کرنے کی بھی وضاحت ہے، جس سے پتا چلا کہ یہ کیفیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور یہی امام نسائی رحمہ اللہ کی غرض معلوم ہوتی ہے۔ صرف پیشانی اور اس کے بقدر سر کا مسح کرنا مشروع نہیں ہے اگرچہ اس روایت سے احناف نے دلیل لی ہے کہ صرف پیشانی پر یا پیشانی کے بقدر (سر کا چوتھائی حصہ) مسح فرض ہے، حالانکہ اگر ایسا ہوتا تو پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پگڑی پر مسح کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ صرف پگڑی پر مسح کر لیا جائے، اور یہ جائز ہے جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زادالمعاد: (۱۹۴/۱) میں ذکر کیا ہے۔ اور گزشتہ حدیث (نمبر ۱۰۴) کے فوائد میں وضاحت کی گئی ہے۔ اور تیسرا پورے سرے کا مسح کرنا جبکہ سر پر پگڑی نہ ہو۔ یہ تینوں طریقے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ (2) اس سے یہ بھی پتا چلا کہ مقتدی امام کو جس حال میں پائے، امام کے ساتھ مل جائے اور جو نماز گزر چکی ہو، وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کرے۔ (3) جب امام راتب کسی بنا پر اول وقت سے دیر کر دے تو کوئی دوسرا آدمی اس کی جگہ نماز پڑھا سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مغیرہ بن شعبہ ؓ کہتے ہیں: دو باتیں ایسی ہیں کہ میں ان کے متعلق کسی سے نہیں پوچھتا، اس کے بعد کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو انہیں کرتے ہوئے دیکھ لیا ہے، (پہلی چیز یہ ہے کہ) ایک سفر میں ہم آپ ﷺ کے ساتھ تھے، تو آپ قضائے حاجت کے لیے جنگل کی طرف نکلے، پھر واپس آئے تو آپ نے وضو کیا، اور اپنی پیشانی اور پگڑی کے دونوں جانب کا مسح کیا، اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا، (دوسری چیز) حاکم کا اپنی رعایا میں سے کسی آدمی کے پیچھے نماز پڑھنا ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ ایک سفر میں تھے کہ نماز کا وقت ہو گیا، اور نبی اکرم ﷺ رکے رہ گئے، چنانچہ لوگوں نے نماز کھڑی کر دی اور ابن عوف ؓ کو آگے بڑھا دیا، انہوں نے نماز پڑھائی، پھر رسول اللہ ﷺ تشریف لائے، اور ابن عوف ؓ کے پیچھے جو نماز باقی رہ گئی تھی پڑھی، جب ابن عوف ؓ نے سلام پھیرا تو نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوئے، اور جس قدر نماز فوت ہو گئی تھی اسے پوری کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Al-Mughira bin Shu’bah said: “There are two things which I never asked anyone about after I saw the Messenger of Allah (ﷺ) . He was with us on a journey and he went away to relieve himself, then he came and performed Wudu and he wiped over his forehead and two sides of his ‘Imamah, and he wiped over his Khuffs.” He said: “And (the other issue) the Imam’s Salah behind one of his followers. I saw the Messenger of Allah (ﷺ) . when he was on a journey and time for prayer came. The Prophet (ﷺ) could not join them, so they called the Iqamah and they asked Ibn ‘Awf to lead them in prayer. Then the Messenger of Allah (ﷺ) , came and offered the remainder of the prayer behind Ibn ‘Awf then when Ibn ‘Awf said the Salah, the Prophet (ﷺ) stood up and completed what he had missed (of the prayer).” (Sahih)