باب: جو شخص بالوں کا جوڑا بنا کر نماز پڑھے، اس کی مثال؟
)
Sunan-nasai:
The Book of The At-Tatbiq (Clasping One's Hands Together)
(Chapter: The likeness of one who prays with his hair bound behind him)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1114.
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے عبداللہ بن حارث کو نماز پڑھتے دیکھا جب کہ وہ سر کے بالوں کا جوڑا بنا کر اسے پیچھے باندھے ہوئے تھے۔ آپ اٹھے اور بالوں کا جوڑا (گچھا) کھولنے لگے۔ عبداللہ بن حارث نماز سے فارغ ہوئے تو ابن عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگے: آپ کو میرے بالوں سے کیا شکایت تھی؟ (جو آپ نے انھیں کھولا) انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اس قسم کے نمازی کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو پیچھے بندھے ہوئے ہاتھوں (کسی مشکوں) سے نماز پڑھتا ہے۔“
تشریح:
(1) جس طرح پیچھے بندھے ہوئے ہاتھوں والا بہت ناقص نماز پڑھتا ہے، اسی طرح بندھے ہوئے بالوں والا اپنے بالوں کو ثواب سے محروم رکھتا ہے، بخلاف اس کے اگر وہ بال زمین پر لگتے تو ان کا بھی سجدہ شمار ہوتا اور انھیں ثواب ملتا۔ گویا نماز سے پہلے بھی بالوں کا جوڑا نہیں بنا ہونا چاہیے، چہ جائیکہ کوئی نماز میں ایسے کرے۔ (2) خلاف شرع کام ہوتا دیکھ کر موقع ہی پر تنبیہ کر دینی چاہیے، خواہ مخواہ یا بالکل سکوت نہیں کرنا چاہیے۔ (3) برائی کو ہاتھ سے مٹانے کی طاقت ہو تو اسے ہاتھ سے مٹا دینا چاہیے۔ (4) خبر واحد حجت ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وأخرجه هو وأبو عوانة في
"صحيحيهما") .
إسناده: حدثنا محمد بن سلمة: ثنا ابن وهب عن عمرو بن الحارث أن بكيراً
حدثه أن كريباً مولى ابن عباس حدثه: أن عبد الله بن عباس...
قلت: وهذا سند صحيح على شرط مسلم؛ وقد أخرجه كما يأتي.
والحديث أخرجه البيهقي (2/102) من طريق المصنف.
وأخرجه هو، ومسلم (2/53) ، وأبو عوانة (2/74) ، والنسائي (1/167) من
طرق أخرى عن ابن وهب... به.
وأخرجه الدارمي (1/320) ، وأحمد (رقم 2768 و 2904) من طرق أخرى
عن ابن الحارث... به؛ وقرن أحمد في رواية بـ (كريب) : شعبة مولى ابن
عباس.
ثم أخرج (رقم 2905) - المرفوع منه فقط- من طريق ابن لهيعة عن بكير.
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے عبداللہ بن حارث کو نماز پڑھتے دیکھا جب کہ وہ سر کے بالوں کا جوڑا بنا کر اسے پیچھے باندھے ہوئے تھے۔ آپ اٹھے اور بالوں کا جوڑا (گچھا) کھولنے لگے۔ عبداللہ بن حارث نماز سے فارغ ہوئے تو ابن عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگے: آپ کو میرے بالوں سے کیا شکایت تھی؟ (جو آپ نے انھیں کھولا) انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اس قسم کے نمازی کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو پیچھے بندھے ہوئے ہاتھوں (کسی مشکوں) سے نماز پڑھتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) جس طرح پیچھے بندھے ہوئے ہاتھوں والا بہت ناقص نماز پڑھتا ہے، اسی طرح بندھے ہوئے بالوں والا اپنے بالوں کو ثواب سے محروم رکھتا ہے، بخلاف اس کے اگر وہ بال زمین پر لگتے تو ان کا بھی سجدہ شمار ہوتا اور انھیں ثواب ملتا۔ گویا نماز سے پہلے بھی بالوں کا جوڑا نہیں بنا ہونا چاہیے، چہ جائیکہ کوئی نماز میں ایسے کرے۔ (2) خلاف شرع کام ہوتا دیکھ کر موقع ہی پر تنبیہ کر دینی چاہیے، خواہ مخواہ یا بالکل سکوت نہیں کرنا چاہیے۔ (3) برائی کو ہاتھ سے مٹانے کی طاقت ہو تو اسے ہاتھ سے مٹا دینا چاہیے۔ (4) خبر واحد حجت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن حارث ؓ کو اس حالت میں نماز پڑھتے دیکھا کہ ان کے سر میں پیچھے جوڑا بندھا ہوا تھا، تو وہ کھڑے ہو کر اسے کھولنے لگے، جب عبداللہ بن حارث ؓ سلام پھیر چکے تو ابن عباس ؓ کے پاس آئے، اور کہنے لگے: آپ کو میرے سر سے کیا مطلب تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: ”اس کی مثال اس آدمی جیسی ہے جو نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے ہاتھ بندھے ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn 'Abbas that: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "I have been commanded to prostrate on seven and not to tuck up my hair or garment".