Sunan-nasai:
The Book of The At-Tatbiq (Clasping One's Hands Together)
(Chapter: The supplication when prostrating)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1121.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ میں نے اپنی خالہ میمونہ بنت حارث ؓ کے گھر رات گزاری۔ رسول اللہ ﷺ بھی ان کے پاس وہیں آرام فرما تھے۔ میں نے آپ ﷺ کو دیکھا کہ آپ قضائے حاجت کے لیے اٹھے۔ پھر آپ مشکیزے کے پاس آئے، اس کا بند کھولا، پھر درمیانہ سا وضو کیا۔ پھر اپنے بستر پر تشریف لائے اور سو گئے۔ پھر دوبارہ اٹھے اور مشکیزے کے پاس گئے، اس کا بند کھولا، پھر مکمل وضو فرمایا، پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے۔ آپ اپنے سجدے میں کہتے تھے: [اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا……… وَأَعْظِمْ لِي نُورًا] ”اے اللہ! میرے دل کو منور فرما۔ میرے کان منور فرما۔ میری آنکھیں روشن کر دے۔ مجھ پر اوپر نیچے سے نور برسا۔ میرے دائیں بائیں کو منور فرما۔ مجھے آگے پیچھے سے پرنور فرما اور مجھے عظیم نور عطا فرما۔“ پھر (نماز مکمل کرنے کے بعد) آپ سو گئے حتیٰ کہ خراٹے بھرنے لگے۔ کچھ دیر بعد حضرت بلال ؓ آئے اور آپ کو نماز کے لیے جگایا۔
تشریح:
(1) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز دیکھنے کے لیے قصداً یہ رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرۂ مبارکہ میں گزاری تھی اور اس کے لیے باقاعدہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما اور ان کے توسط سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی تھی۔ (2) درمیانہ وضو سونے کے لیے تھا۔ نماز کے لیے ہوتا تو آپ مکمل وضو فرماتے جیسا کہ بعد میں کیا۔ (3) یہاں نور سے مراد علم، ہدایت اور ایمان ہے کیونکہ قرآن مجید اور احادیث میں متعدد مقامات پر لفظ نور ان معانی میں استعمال ہوا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ میں نے اپنی خالہ میمونہ بنت حارث ؓ کے گھر رات گزاری۔ رسول اللہ ﷺ بھی ان کے پاس وہیں آرام فرما تھے۔ میں نے آپ ﷺ کو دیکھا کہ آپ قضائے حاجت کے لیے اٹھے۔ پھر آپ مشکیزے کے پاس آئے، اس کا بند کھولا، پھر درمیانہ سا وضو کیا۔ پھر اپنے بستر پر تشریف لائے اور سو گئے۔ پھر دوبارہ اٹھے اور مشکیزے کے پاس گئے، اس کا بند کھولا، پھر مکمل وضو فرمایا، پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے۔ آپ اپنے سجدے میں کہتے تھے: [اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا……… وَأَعْظِمْ لِي نُورًا] ”اے اللہ! میرے دل کو منور فرما۔ میرے کان منور فرما۔ میری آنکھیں روشن کر دے۔ مجھ پر اوپر نیچے سے نور برسا۔ میرے دائیں بائیں کو منور فرما۔ مجھے آگے پیچھے سے پرنور فرما اور مجھے عظیم نور عطا فرما۔“ پھر (نماز مکمل کرنے کے بعد) آپ سو گئے حتیٰ کہ خراٹے بھرنے لگے۔ کچھ دیر بعد حضرت بلال ؓ آئے اور آپ کو نماز کے لیے جگایا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز دیکھنے کے لیے قصداً یہ رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرۂ مبارکہ میں گزاری تھی اور اس کے لیے باقاعدہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما اور ان کے توسط سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی تھی۔ (2) درمیانہ وضو سونے کے لیے تھا۔ نماز کے لیے ہوتا تو آپ مکمل وضو فرماتے جیسا کہ بعد میں کیا۔ (3) یہاں نور سے مراد علم، ہدایت اور ایمان ہے کیونکہ قرآن مجید اور احادیث میں متعدد مقامات پر لفظ نور ان معانی میں استعمال ہوا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ بنت حارث ؓ کے پاس رات گزاری، اور رسول اللہ ﷺ بھی اس رات کو ان ہی کے پاس رہے، میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ اپنی حاجت کے لیے اٹھے، مشک کے پاس آئے، اور اس کا بندھن کھولا، پھر وضو کیا جو دو وضوؤں کے درمیان تھا، (یعنی شرعی وضو نہیں تھا)، پھر آپ اپنے بستر پہ آئے، اور سو گئے ، پھر دوسری بار اٹھے، مشک کے پاس آئے، اور اس کا بندھن کھولا، پھر وضو کیا یہ (شرعی) وضو تھا، پھر آپ ﷺ اٹھ کر نماز پڑھنے لگے، آپ اپنے سجدے میں یہ دعا پڑھ رہے تھے: «اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا وَاجْعَلْ فِي سَمْعِي نُورًا وَاجْعَلْ فِي بَصَرِي نُورًا وَاجْعَلْ مِنْ تَحْتِي نُورًا وَاجْعَلْ مِنْ فَوْقِي نُورًا وَعَنْ يَمِينِي نُورًا وَعَنْ يَسَارِي نُورًا وَاجْعَلْ أَمَامِي نُورًا وَاجْعَلْ خَلْفِي نُورًا وَأَعْظِمْ لِي نُورًا» ”اے اللہ! میرے دل کو منور کر دے، میرے کانوں کو نور (روشنی) سے بھر دے، میری آنکھوں کو روشن کر دے، میرے نیچے نور کر دے، میرے اوپر نور کر دے، میرے دائیں نور کر دے، میرے بائیں نور کر دے، میرے آگے نور کر دے، میرے پیچھے نور کر دے، اور میرے لیے نور کو عظیم کر دے“ ، پھر آپ سو گئے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے، پھر بلال ؓ آئے، اور آپ ﷺ کو نماز کے لیے جگایا۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دعا آپ نے تہجد کے سجدے میں پڑھی تھی، اس لیے تہجد یا نوافل میں اس طرح کی لمبی دعائیں پڑھے، فرائض میں خصوصاً جب امام ہو تو مختصر دعائیں پڑھے جن میں سے بعض کا تذکرہ آگے آ رہا ہے، ان میں سے معروف دعا «سبحانَ ربِّيَ الأعلى» ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Abdullah bin 'Abbas (RA) said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) drew aside the curtain when he had a cloth wrapped around his head during his final illness, and said: 'O Allah, I have conveyed (the Message)' three times. 'There is nothing left of the features of Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم)hood except a good dream that a person sees or is seen by others for him. But I have been forbidden to recite the Qur'an when bowing and prostrating, so when you bow, then glorify your Lord and when you prostrate, then strive hard in supplication, for it is more deserving of a response'".