Sunan-nasai:
Description Of Wudu'
(Chapter: Wiping Over The Khuffs)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
118.
حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔ انھیں کہا گیا کہ کیا آپ موزوں پر مسح کرتے ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا: میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے شاگردوں کو جریر کی یہ روایت بہت پسند آتی تھی کیونکہ حضرت جریر ؓ نبی ﷺ کی وفات سے تھوڑا عرصہ پہلے اسلام لائے تھے۔
تشریح:
(1) موزوں پر مسح کرنا اہل سنت کا اجماعی مسئلہ ہے۔ شیعہ حضرات ہر حال میں ننگے پاؤں پر مسح کے قائل ہیں اور خوارج ہر حال میں پاؤں دھونے ہی کے قائل ہیں۔ اہل سنت چند شروط کے ساتھ موزوں پر مسح کے قائل و فاعل ہیں اور یہی درست ہے۔ (2) بعض حضرات جو مسح کے قائل نہیں، ان کا کہنا ہے کہ موزوں کے مسح کی روایات سورۂ مائدہ کے نزول سے قبل کی ہیں کیونکہ سورۂ مائدہ میں وضو اور خصوصاً پاؤں دھونے کا حکم ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ موزوں پر مسح کے جواز کے راوی سیدنا جریررضی اللہ عنہ بھی ہیں اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف چالیس (۴۰) دن قبل مسلمان ہوئے۔ ان کا آپ کو مسح کرتے دیکھنا قطعی دلیل ہے کہ موزوں پر مسح منسوخ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد، حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بہت خوش ہوتے تھے کیونکہ اس سے مسلک اہل سنت کی زبردست تائید ہوتی ہے، نیز یہ قرآنی حکم کے منافی بھی نہیں بلکہ قرآن مجید کے الفاظ ﴿وامسحوا برء وسکم وارجلکم﴾(المآئدة:۶:۵) میں أرجلکم کی ایک قراءت مجرور کی بھی ہے۔ اور علماء اس میں یہ تطبیق دیتے ہیں کہ اگر اسے مجرور پڑھا جائے تو اس کا مطلب موزوں پر مسح کرنا ہوگا۔ قرآن مجید اور سب احادیث کو ملانے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پاؤں ننگے ہوں تو دھوئے جائیں اگر جرابوں اور موزوں میں ہوں تو ان پر مسح کیا جائے۔ اس طرح آیت وضو اور احادیث پر عمل ہو جائے گا۔ شیعہ اور خوارج کی بات ماننے سے بہت سی صحیح روایات کا انکار کرنا پڑتا ہے اور یہ گمراہی ہے۔
حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔ انھیں کہا گیا کہ کیا آپ موزوں پر مسح کرتے ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا: میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے شاگردوں کو جریر کی یہ روایت بہت پسند آتی تھی کیونکہ حضرت جریر ؓ نبی ﷺ کی وفات سے تھوڑا عرصہ پہلے اسلام لائے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) موزوں پر مسح کرنا اہل سنت کا اجماعی مسئلہ ہے۔ شیعہ حضرات ہر حال میں ننگے پاؤں پر مسح کے قائل ہیں اور خوارج ہر حال میں پاؤں دھونے ہی کے قائل ہیں۔ اہل سنت چند شروط کے ساتھ موزوں پر مسح کے قائل و فاعل ہیں اور یہی درست ہے۔ (2) بعض حضرات جو مسح کے قائل نہیں، ان کا کہنا ہے کہ موزوں کے مسح کی روایات سورۂ مائدہ کے نزول سے قبل کی ہیں کیونکہ سورۂ مائدہ میں وضو اور خصوصاً پاؤں دھونے کا حکم ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ موزوں پر مسح کے جواز کے راوی سیدنا جریررضی اللہ عنہ بھی ہیں اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف چالیس (۴۰) دن قبل مسلمان ہوئے۔ ان کا آپ کو مسح کرتے دیکھنا قطعی دلیل ہے کہ موزوں پر مسح منسوخ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد، حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بہت خوش ہوتے تھے کیونکہ اس سے مسلک اہل سنت کی زبردست تائید ہوتی ہے، نیز یہ قرآنی حکم کے منافی بھی نہیں بلکہ قرآن مجید کے الفاظ ﴿وامسحوا برء وسکم وارجلکم﴾(المآئدة:۶:۵) میں أرجلکم کی ایک قراءت مجرور کی بھی ہے۔ اور علماء اس میں یہ تطبیق دیتے ہیں کہ اگر اسے مجرور پڑھا جائے تو اس کا مطلب موزوں پر مسح کرنا ہوگا۔ قرآن مجید اور سب احادیث کو ملانے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پاؤں ننگے ہوں تو دھوئے جائیں اگر جرابوں اور موزوں میں ہوں تو ان پر مسح کیا جائے۔ اس طرح آیت وضو اور احادیث پر عمل ہو جائے گا۔ شیعہ اور خوارج کی بات ماننے سے بہت سی صحیح روایات کا انکار کرنا پڑتا ہے اور یہ گمراہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے وضو کیا، اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا، تو ان سے کہا گیا: کیا آپ مسح کرتے ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو مسح کرتے دیکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Jarir bin ‘Abdullah that he performe Wudu and wiped over his Khuffs. It was said to him: “Are you wiping (over your Khuffs)?” He said: “I saw the Messenger of Allah (ﷺ) wiping (over his Khuffs).” The companions of ‘Abdullah liked what Jarir said, because Jarir became Muslim shortly before the Prophet (ﷺ) died. (Sahih)