Sunan-nasai:
The Book of Jumu'ah (Friday Prayer)
(Chapter: Coming To Jumu'ah Prayers Early)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1385.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب جمعے کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے دروازوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور جمعۃ المبارک کے لیے آنے والوں کے نام لکھتے ہیں۔ جب امام خطبے کے لیے نکلتا ہے تو فرشتے اپنے رجسٹر بند کر لیتے ہیں۔“ (راویٔ حدیث) حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جمعے کے لیے سب سے پہلے آنے والا (کعبے کی طرف) قربانی کے لیے اونٹ بھیجنے والے کی طرح ہے۔ پھر اس کے بعد آنے والا (کعبے کی طرف) قربانی کے لیے گائے بھیجنے والے کی طرح ہے۔ پھر اس کے بعد آنے والا (کعبے کی طرف) قربانی کے لیے بکری بھیجنے والے کی طرح ہے۔ پھر اس کے بعد آنے والا (کعبے کی طرف) قربانی کے لیے بطخ بھیجنے والے کی طرح ہے۔ پھر اس کے بعد آنے والا (کعبے کی طرف) قربانی کے لیے مرغی بھیجنے والے کی طرح ہے۔ پھر اس کے بعد آنے والا (کعبے کی طرف) قربانی کے لیے انڈا بھیجنے والے کی طرح ہے۔“
تشریح:
(1) ”فرشتے“ یہ مخصوص فرشتے ہیں جو صرف جمعے سے قبل آنے والوں کے نام اور ثواب لکھنے کے لیے مقرر ہیں۔ (عموماً اعمال لکھنے والے فرشتے تو ہر وقت لکھتے رہتے ہیں۔) پھر یہ خطبہ بھی سنتے ہیں۔ اس سے جمعۃ المبارک کی عظمت ظاہر ہوتی ہے، اسی لیے اس دن کو قرآن مجید میں ”شاہد“ کہا گیا ہے اور اگر اس سے عام ”کراما کاتبین“ مراد ہوں تو پھر جمعۃ المبارک کے لیے خطبے سے پہلے آنے والوں کے لیے مخصوص رجسٹر ہوں گے جنھیں خطبہ شروع ہونے سے قبل بند کر دیا جاتا ہے۔ اس میں پہلے آنے والوں کی عظیم فضیلت ہے کہ ان کی حاضری کے لیے فرشتے دروازوں پر آکر بیٹھتے ہیں۔ ﴿ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ﴾۔ (2) ”سب سے پہلے آنے والا“ بعض علماء کا خیال ہے کہ فرشتوں نے خطبے سے پہلے کچھ اوقات مقرر کر رکھے ہوں گے۔ ان اوقات کے لحاظ سے لوگوں کے درجات بنتے ہوں گے ورنہ ظاہراً تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے آنے والے صرف چھ سات افراد کے نام لکھے جاتے ہیں مگر یہ درست نہیں کیونکہ ممکن ہے بیک وقت کئی افراد داخل ہوں، لہٰذا اوقات کا تقرر ہوگا مگر ان اوقات کی تفصیل کسی حدیث میں نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ علماء کے مابین اس بارے میں اختلاف ہے۔ جمعے کے لیے جلدی نکلنا بالاتفاق مستحب ہے لیکن اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ حدیث میں وارد پانچ گھڑیوں سے مراد کیا ہے؟ کیا پانچ یا چھ گھڑیوں سے مقصود صرف وقت کے چند اجزاء ہیں یا وہ معروف گھڑیاں ہیں جن میں دن رات ۲۴ گھنٹوں میں تقسیم ہوتے ہیں؟ جمہور علماء و فقہاء اس سے مراد معروف زمانی ساعات (گھنٹے) لیتے ہیں۔ امام شافعی، امام احمد، سفیان ثوری اور امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ وغیرہ کی یہی رائے ہے۔ ایک دن میں بارہ گھڑیاں ہوتی ہیں جیسا کہ اس کی تائید حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہوتی ہے کہ جمعے کے دن کی بارہ گھڑیاں ہوتی ہیں۔ اس کی سند صحیح ہے۔ (سنن أبي داود، لاصلاة، حدیث: ۱۰۴۸، و صحیح سنن أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث: ۹۶۳) اس لحاظ سے ان کے ہاں سورج کے بلند ہونے سے پہلی گھڑی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس طرح زوال شمس تک، وقت کے اس دورانیے کو پانچ گھڑیوں میں تقسیم کر لیا جائے، خواہ پہلی گھڑی گھنٹے پر مشتمل ہو یا سوا یا ڈیڑھ گھنٹے پر کیونکہ گرمی سردی کے اعتبار سے وقت کے لحاظ سے گھڑیوں میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے لیکن دن کبھی بارہ گھڑیوں سے کم نہیں ہوتا۔ اس طرح پہلی گھڑی میں آنے والے افراد، خواہ تعداد میں زیادہ ہی ہوں، وہ اونٹ کی قربانی کا ثواب پائیں گے۔ اسی طرح ترتیب وار دیگر گھڑیوں میں آنے والے حضرات بھی اسی حساب سے ثواب میں شریک ہوں گے۔ ”الساعۃ“ کے عرف میں بھی یہی معنیٰ متبادر ہیں۔ دوسرا موقف امام مالک رحمہ اللہ اور بعض شوافع کا ہے۔ ان کے نزدیک احادیث میں وارد ساعات سے مراد معروف گھڑیاں نہیں بلکہ زوال کے بعد چند لحظات یا لمحات ہیں، یعنی زوال کے بعد چھٹی گھڑی کے یہ چند اجزاء یا لمحات ہوتے ہیں جن میں فرشتے آنے والوں کے ترتیب وار نام لکھتے ہیں۔ اس دعوے کی ان کے پاس چند دلیلیں ہیں: پہلی دلیل: حدیث میں لفظ [راح] (فعل ماضی) استعمال ہوا ہے جس کے معنیٰ بعد از زوال جانے یا روانہ ہونے کے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعد از زوال جلدی نکلنے کی ترغیب ہے نہ کہ دن کے آغاز میں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ لفظ راح صرف بعد از زوال جانے پر نہیں بولا جاتا، بلکہ مطلق جانے پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے، خواہ جانا کسی وقت بھی ہو، یہ اہل حجاز کی لغت ہے، جیسا کہ امام زہری رحمہ اللہ نے کہا ہے، لہٰذا سفر دن کے آغازم یں یا آخر میں یا رات کے وقت ہو، اس پر یہ لفظ بولا جاتا ہے، اس کی بعد از زوال وقت کے ساتھ تخصیص درست نہیں۔ دوسری دلیل: حدیث میں وارد لفظ [الھجر] ہے، نیز اس حدیث میں بجائے ساعات کے لفظ [ثم] استعمال ہوا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کے بعد آئیں، اور اس میں گھڑیو کا ذکر نہیں ہے۔ اور [المھجر، تھجیر] سے مشتق ہے جس کے معنی عین دوپہر کا وقت ہیں جسے عربی میں الھاجرۃ کہتے ہیں۔ اس سے بھی پتہ چلا کہ آغاز دن مراد نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جن روایات میں ساعات کا ذکر ہے، وہ مفصل ہیں اور لفظ [ثم] کے ساتھ منقول حدیث مبہم ہے۔ قاعدے کی رو سے مجمل کو مفصل پر محمول کیا جاتا ہے، یعنی جو وضاحت مفصل میں ہوتی ہے، اسے ہی لینا ضروری ہے، اس لیے الساعات کی تصریح سے منقول روایات مقدم ہیں، نیز سب طرق و روایات میں صرف لفظ [الھجر] ہی نہیں آتا بلکہ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ بعض میں لفظ [غدا] اور بعض میں [المتعجل] ”جلدی کرنے والے“ کے الفاظ وغیرہ بھی ہیں۔ اس سے لفظ [المھجر] کے معنی متعین ہو جاتے ہیں، نیز لغت میں یہ لفظ تبکیر و تعجیل کے معنی میں بھی آتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ اس کے معنی میں عین دوپہر یا شدید دھوپ میں نکلنے کے بھی آتے ہیں لیکن لغت کی روشنی میں تبکیر و تعجیل کے معنی سے بھی مفر نہیں، بلکہ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہاں اسی مؤخر الذکرمعنی میں استعمال ہوا ہے۔ تیسری دلیل: لفظ [الساعة] معروف گھنٹے کے معنی میں نہیں بلکہ زمانے یا وقت کے ایک جز یا حصے پر بولا جاتا ہے۔ اردو میں اس کے معنی ”گھڑی“ کے کیے جاتے ہیں، یہ عام ہے، خواہ تھوڑے وقت کو محیط ہو یا زیادہ کو، اسی لیے اس کے معنی لمحے یا لحظات کیے جاتے ہیں۔ اس کا جواب تین طرح دیا جا سکتا ہے: (1) شرعاً ایک دن کے بارہ گھڑیوں میں تقسیم ہونے کا ذکر ملتا ہے جیسا کہ سنن ابی داود کی حدیث میں ہے۔ زیر بحث مسئلے میں اس سے تائید لی جا سکتی ہے۔ (2) عرف میں بھی الساعۃ کے متبادر معنیٰ یہی ہیں جو جمہور مراد لیتے ہیں۔ (3) اگر الساعات سے مراد چھٹی گھڑی کے چند لمحات یا لحظے ہی ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پانچ گھڑیوں کے ذکر کے کیا معنیٰ ہیں؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے مراد وہی پانچ گھڑیاں ہیں جو بارہ گھڑیوں کا حصہ ہیں۔ جن پر، گرمی ہو یا سردی، ایک دن محیط ہوتا ہے۔ چوتھی دلیل: اگر احادیث میں وارد ساعات سے مراد چند لمحے یا لحظات مراد نہ ہوں تو اس سے ان گھڑیوں کی طوالت لازم آتی ہے، یعنی ان گھڑیوں کا دورانیہ لمبا ٹھہرتا ہے جس سے، سابق اور لاحق، یعنی پہلے اور بعد میں آنے والوں کا فرق ختم ہو جاتا ہے، اور ان گھڑیوں میں یکے بعد دیگرے آنے والوں کی فضیلت میں برابری اور یکسانیت لازم آتی ہے، مثلاً: پہلی گھڑی اگر ایک یا سوا گھنٹے پر مشتمل ہو تو ممکن ہے اس گھڑی میں وہ چار یا آٹھ دس آدمی یکے بعد دیگرے آئیں۔ اسی طرح باقی گھڑیوں میں بھی یہ ہوتا ہے یا اس کا قوی امکان ہے۔ کیا اس گھڑی میں آنے والے ان تمام افراد کو اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہے یا صرف ان کو جو ان میں سے پہلے آئے اور بس؟ اسی اعتراض سے بچنے کے یے امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ ان سے مراد چند لمحات یا لحظات لیتے ہیں۔ اس اشکال کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اگرچہ پہلی گھڑی میں یکے بعد دیگرے آنے والے تمام افراد نفس اونٹ کی قربانی کا ثواب تو پاتے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے، لیکن اس سے ہر لحاظ سے اونٹ کی قربانی میں تمام افراد کی برابری اور یکسانیت لازم نہیں آتی، وہ اس طرح کہ جو سب سے پہلے آئے اسے خوب موٹے تازے فربے اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہو، جو اس کے بعد آئے اسے اس سے کم تر اور جو اس کے بعد آئے اسے اس سے کمزور یا کم تر اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہو، یعنی مذکورہ تفاوت اور فرق یا اختلاف مراتب نفس اونٹ وغیرہ کی ذات کی بنا پر تو نہ ہو بلکہ ان کی صفات میں ہو اور برابری صرف اونٹ وغیرہ کی ذات کی حد تک ہو جیسا کہ ذکر ہوا، اور یہی بات درست ہے۔ حدیث کو اس طرح سمجھنے سے اشکال و اعتراض رفع ہو جاتا ہے۔ واللہ أعلم۔ پانچویں دلیل: اہل مدینہ کا عمل اس کے برعکس تھا۔ وہ آغاز دن ہی سے نہیں آتے تھے بلکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کا بھی یہ عمل نہ تھا، اس لیے اگر حدیث میں وارد لفظ الساعات سے جمہور والی گھڑیاں مراد لی جائیں تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نیکی کی شدید رغبت و حرص کے باوجود اول النہار حاضر نہ ہوتے تھے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں ساعات سے مراد زوال کے بعد چھٹی گھڑی کے چند مختصر لمحے یا لحظے ہی ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اہل مدینہ کل امت نہیں کہ ان کا اتفاق یا عدم عمل قابل حجت اور اجماع کی حیثیت کا حامل ہو۔ پھر اول النہار مسجد کی طرف جانا بھی تو کوئی واجبی عمل نہیں، بلکہ بعض دیگر امور دینی یا دیگر مصالح اس عمل سے کہیں زیادہ اہمیت و فضیلت کے حامل ہوتے ہیں، اس لیے اسے ترک کیا جا سکتا ہے اور یہ جائز ہے۔ اس سے یہ نہیں نکلتا کہ اس درجہ تعجیل ان کے ہاں مکروہ یا ناجائز تھی۔ یقیناً جو آدمی نماز فجر پڑھ کر اسی جگہ ذکراذکار میں مشغول رہے اور سورج طلوع ہونے کے بعد دو رکعت پڑھ لے، وہ اس آدمی سے جو صرف اشراق ہی پڑھتا ہے، کہیں زیادہ فضیلت اور ثواب کا حامل ہے۔ اسی طرح وہ آدمی، جو نماز فجر کی ادائیگی کے بعد غسل وغیرہ کرے اور تیار ہو، اور اشراق پڑھ کر نماز جمعہ کے انتظار میں بیٹھا رہے، یقیناً اس شخص کی نسبت یہ کہیں زیادہ فضیلت پاتا ہے جو خطیب کے آنے سے صرف چند لمحے قبل مسجد میں پہنچتا ہے، جبکہ احادیث کی روشنی میں اس طرح انتظار کرنے والے کو بدستور نماز کی حالت میں شمار کیا گیا ہے۔ بلاشبہ ایسے آدمی کی فضیلت کا کسی کو انکار نہیں اور نہ ہونا چاہیے۔ اس قسم کے اعمال کی مشروعیت عمومی دلائل و احادیث سے اخذ ہوتی ہے۔ کی صحابی یا تابعی کے عدم عمل یا ان کے متعلق عدم نقل کی بنا پر اسے رد نہیں کیا جا سکتا۔ واللہ أعلم۔ چھٹی دلیل: اگر حدیث میں موجود الساعات کو فلکی ساعات، یعنی گھنٹوں کے معنیٰ میں لیا جائے تو اس صورت میں خطیب کا قبل از زوال نکلنا لازم آتا ہے۔ وہ اس طرح کہ آفتاب کے بلند ہونے سے امام کے خروج سے قبل تک، وقت کے دورانیے کو پانچ گھڑیوں میں تقسیم کیا جائے تو پانچویں گھڑی کے بعد خروجِ امام کا ذکر ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے۔ یہ چھٹی گھڑی کا ابتدائی اور قبل از زوال کا وقت ہوتا ہے۔ اور جمہور کے نزدیک قبل از زوال نماز جمعہ درست نہیں۔ لیکن جن کے نزدیک یہ جائز ہے ان کے لیے یہ حدیث قابل اعتراض نہیں بلکہ ان کے حق میں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: اس حدیث کے کسی طریق میں امام کے اول النہار نکلنے کا ذکر نہیں ہے ہوسکتا ہے پہلی گھڑی نہانے اور جمعے کی تیاری وغیرہ کے لیے ہو۔ اور مسجد میں آنا دوسری گھڑی کے آغاز میں ہو۔ اس طرح دن کے اعتبار سے یہ دوسری گھڑی ہوگی اور جانے کے اعتبار سے پہلی۔ بنا بریں پانچویں گھڑی کے آخری لحظے زوال کے ابتدائی لمحات ہوں گے۔ (فتح الباري: ۳۶۸/۲) الغرض مذکورہ معروضات سے واضح ہوتا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کا موقف مرجوح ہے۔ جمہور علماء کے دلائل قوی اور قرین قیاس ہیں۔ اگرچہ قرآن و حدیث کی روشنی میں حدیث میں منقول ساعات کی واضح طور پر تحدید مشکل ہے لیکن فریق مخالف کے مقابلے میں جمہور کی رائے ہی مضبوط ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق بھی یہی ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (إحکام الأحکام شرح عمدة الأحکام لابن دقیق العبد، مع حاشیة العدة: ۵۳۱-۵۲۲/۲، وزاد المعاد: ۴۰۷-۳۹۹/۱ بتحقیق شعیب الأرناؤط، و فتح الباري: ۳۷۰-۳۶۶/۲، رقم الحدیث: ۸۸۱، و مرعاة المفاتیح: ۲۹۵-۲۹۳/۲، طبعه أولی، و موسوعه فقھیه از حسین بن عوده: ۳۶۲/۲) (3) رجسٹر بند ہونے کے بعد آنے والے سبقت کے ثواب سے محروم رہتے ہیں مگر انھیں جمعے کی حاضری، خطبے کے سماع، نماز میں شرکت اور ذکر و دعا وغیرہ کا ثواب ملتا ہے۔ لیکن درجات میں فرق پڑ جاتا ہے۔ (4) بعض لوگ اس حدیث سے اس بات پر استدلال کرتے ہیں کہ مرغی کی قربانی بھی جائز ہے لیکن اگر اس استدلال کو درست سمجھ لیا جائے تو پھر انڈے کی قربانی کا جواز بھی تسلیم کرنا پڑے گا، جسے یہ خود بھی تسلیم نہیں کرتے۔ بنا بریں یہ استدلال درست نہیں۔ اس حدیث میں مذکورہ چیزوں کی قربانی سے مراد وہ اجر و ثواب ہے جو ان چیزوں کے صدقہ کرنے سے ملتا ہے، اسی لیے بعض لوگ [مھدی] کے معنیٰ ہی ”صدقہ کرنے والا“ کرتے ہیں۔ بہرحال جو معنیٰ بھی کیے جائیں، اس سے مرغی یا انڈے کی قربانی کا جواز کشید کرنا یکسر غلط ہے۔ (5) ادنیٰ سی چیز بھی اللہ کی راہ میں دینے سے ہچکچانا نہیں چاہیے۔ اخلاص کے ساتھ دی ہوئی معمولی سی چیز بھی عنداللہ بہت زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ن فرمایا: ”آگ سے بچو، چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے (کے صدقے) کےساتھ ہی۔“ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: ۱۴۱۷)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1386
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1384
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
1386
تمہید کتاب
امت محمدیہ تمام امتوں سے افضل امت ہے۔ اس پر الله تعالی کے بے شمار انعام و اکرام ہیں۔ یہ انعامات ربانیہ کاخوری محور ہے۔ جمعۃ المبارک کا دن بھی انہی انعامات جلیلہ میں سے ایک ہے۔ جس طرح تمام مہینوں میں سےرمضان المبارک تمام دنوں میں سے یوم عرفہ اور یوم نحر‘تمام راتوں میں سے لیلۃ القدر اور تمام اوقات میں سے رات کا آخری حصہ افضل ہے اور ان میں اللہ رب العزت کی خصوصی رحمت اور برکت بندوں پر نازل ہوتی ہے اسی طرح ہفتے کے دنوں میں سےجمعۃ المبارک کادن افضل ہے۔ الله تعالی کی خصوی عنایات اور لطف و کرم کادن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے اور ہونے والےہیں۔اکرم ﷺنے فرمایا(خير يوم طلعت عليه الشمس يوم الجمعة، فيه خلق آدم، وفيه أدخل الجنة،وفيه أخرج منها، ولا تقوم الساعة إلا في يوم الجمعة) سب سے اچھا دن جس میں سورج طلوع ہوا ہے جمعے کا دن ہے ‘اس دن آدم کی تخلیق ہوئی ‘اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا اورایک دن وہ جنت سے نکالے گئے اور قیامت بھی جمعے کے دن ہی آئے گی۔(صحیح مسلم الجمعةحديث:(18۔854)سابقہ امتوں (یہودونصاریٰ )کو بھی اس کااختیار دیاگیا لیکن انہوں نے اس کی بجائے ہفتے اوراتوار کادن منتخب کیا۔ یہ سعادت اس آخری امت کے حصے میں آئی کہ اللہ رب العزت کی توفیق سے اس نے جمعۃ المبارک کے دن کا انتخاب کیا۔ نماز جمعہ کی ادائیگی فرض ہے۔ یہ ایک ایسی عبادت ہے جواجتماعی طور پرادا کی جاتی ہے۔ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہے۔ذیل میں جمعہ سے متعلق ضروری احکام اختصار ایک ہی جگہ ذکر کیے جاتے ہیں تا کہ استفادے میں آسانی رہے۔لغوی معنی : یہ جمع سے مشتق ہے۔ اجتماع کے معنی میں ہے۔ اس کی جمع جٌمعٌ اورجٌمعاتآتی ہے۔اصطلای معنی : نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے ایک جگہ جمع ہونا۔وجہ تسمیہ: اس بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ راجح ترین قول کے مطابق اس کا نام’’جمعہ‘‘جواس لیے رکھا گیا ہے کہ حضرت آدم کی تخلیق کے اجزاء اس دن جمع کیے گئے تھے۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اسی قول کو اصح الاقول قرار دیا ہے۔ دیکھیے : (فتح الباري:2/353)ایک قول یہ ہے کہ اس کا نام’’جمعہ‘‘اس لیے رکھا گیا ہے کہ لوگ اس دن میں نماز جمعہ کی ادائیگی کےلیے جمع ہوتے ہیں۔ امام نووی نے شرح مسلم (6/186)میں یہی نقل کی ہے۔جمعے کے دن کی فضیلت :صحیح مسلم کی حدیث: (854) جو پیچھے گزرچکی ہے اس کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں نبی اکرم ا نے فرمایا: (اليوم الموعود يوم القيامة، واليوم المشهود يوم عرفة، والشاهد يوم الجمعة)اللہ رب العزت کے فرمان میں) يوم موعود سے مراد قیامت کا دن مشہود سے مرادعرفے کا دن اور شاہد سے مراد جمعے کا دن ہے۔(جامع الترمذي تفسير القرآن، حدیث:3339) اس حدیث سے بھی جمعے کے دن کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت نے جمعے کے دن کی قسم کھائی۔حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے جمعے کے دن دوران وعظ فرمايا:”اس دن میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ اگرٹھیک اس گھڑی میں بند مسلم کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ چیزضرور عطا کرتا ہے۔ اور آپ ﷺنے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکے بتایا کہ وہ گھڑی تھوڑی سی ہے۔(صحیح البخاري الجمعة حديث:935 و صحيح مسلم الجمعة حديث:852)یہ گھڑی کون سی ہے؟ اس کے متعلق حافظ ابن حجر نے تینتالیس اقوال نقل کیے ہیں۔صحیح ترین مندرجہ ذیل دوقول ہیں(1) یہ گھڑی امام کے منبر پر جلوہ افروز ہونے سے لے کر نماز کے اختتام تک ہے۔ حضرت ابو موسی اشعری فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: (هي مابين أن يجلس الإمام إلى أن تقضى الصلاة (صحيح مسلم الجمعة حديث: 853)(2)یہ گھڑی عصر کے بعد ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:”اسے عصر کے بعددن کی آخری ساعت میں تلاش کرو۔(سنن أبي داود، الصلاة حديث:1048) و سنن النسائي الجمعة حديث:1390)امام ابن قیم زادالمعاد میں فرماتے ہیں: یہ قول حضرت عبداللہ بن سلام ‘حضرت ابو ہریرہ اور جمہور صحابہ و تابعین کا ہے۔ انھوں نے اس قول کو راجح قرار دیا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ اگر چہ قبولیت کی خاص گھڑی عصر کے بعد ہے لیکن مسلمانوں کے اجتماع ان کے تضرع اور گریہ زاری کی قبولیت دعا میں اپنی تاثیر ہوتی ہے اس لیے میرے نزدیک دونوں گھڑیاں ہی قبولیت کی ہیں ۔ نبیﷺ نے دونوں گھروں میں دعا کی ترغیب دی ہے۔ اس طرح دونوں قسم کی احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے : (زادالمعاد:389،396)حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جوشخص غسل کر کے جمعے کے لیے آئے پھر نمازپڑھےجتنی اس کے مقدرمیں ہو‘ پھر خاموشی سے بیٹھارہے یہاں تک کہ امام خطبہ جمعہ سے فارغ ہو جائے‘پھر امام کے ساتھ فرض نماز ادا کرے تو اس کے دو جمعوں کے درمیان کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں بلکہ مزید تین دنوں کے بھی۔ (صحیح مسلم الجمعة حديث:857)حضرت اوس بن اوس بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے (اپنے سر یا کپڑوں کو) اچھی طرح دھویا اورغسل کیا اور اول وقت مسجد میں گیا اور خطبے کو شروع سے سنا اور امام کے قریب بیٹھا اور کوئی فضول کام نہ کیا تو اسے ہر قدم کے عوض ایک سال کے صیام و قیام کا ثواب ملے گا۔ (جامع الترمذي، الجمعة حديث:496، وسنن النسائي الجمعة حديث:1382 ،وصحيح الترغيب والترهيب للألباني:693)حضرت ابوہریرہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس آدمی نے جمعۃ المبارک کے دن غسل جنابت کی طرح اچھی طر ح غسل کیا پھر پہلے وقت میں (جمعے کے لیے) چل پڑاتویوں سمجھو کہ اس نے اونٹ صدقہ کیا اور جوشخص دوسری گھڑی میں چلا‘ گویا اس نے گائے صدقہ کی اور جو تیسری گھڑی میں چلا‘ گویا اس نے مینڈھا صدقہ کیا۔ اور جو آ دمی چوتھی گھڑی میں چلا‘ گویا اس نے مرغی صدقہ کی اور جو پانچویں گھڑی میں گیا‘ گویا اس نے انڈہ صدقہ کیا۔ پھر جب امام (خطبے کے لیے) نکلتاہے تو (خصوصی درجات لکھنے والے) فرشتے بھی مسجدمیں آ کر وعظ سنتے لگتے ہیں۔(صحيح البخاري الجمعة حديث:881 و صحیح مسلم الجمعة حديث:850)فرضیت: نماز جمعہ فرض عین ہے۔ فرمان الہی ہے(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ) (الجمعة9:62)اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو سب اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خریدوفروخت چھوڑ دو۔یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ ‘‘اس میں(فَاسْعَوْا) امر کا مہینہ ہے جو وجوب پر دلالت کر رہاہے۔ امام بخاری نے باب فرض الجمعة کے تحت اس آیت سے فرضیت جمعہ کا استدلال کیا ہے۔حضرت طارق بن شہاب سے مروی ہے رسول اللہﷺنے فرمایا(الجمعة حق واجب على كل مسلم في جماعة)جمعہ باجماعت ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘ (سنن أبي داود الصلاةحديث:1067)حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ہم (زمانے کے لحاظ سے) سب سے پیچھے ہیں (مگرمرتبے کے لحاظ سے) سب سے آگے ہیں۔ علاوہ اس بات کے کہ ان (یہودونصاری)کو ہم سے پہلے کتاب دی گئی۔ اور یہ دن اللہ نے ان پر بھی فرض کیا تھا مگر انھوں نے اس میں اختلاف کیا (یہود نے ہفتے کا اور نصاری نے اتوار کا دن اختیار کیا) الله تعالی نے اس (جمعہ کے) دن کے لیے ہماری رہنمائی فرمائی۔ اب وہ لوگ (عبادت والے دن کےلحاظ سے) ہم سے پیچھے ہیں۔ یہودی ہم سے اگلے دن اور عیسائی اس سے اگلے دن (خصوصی عبادت کرتے ہیں)۔(صحیح البخاري الجمعة حديث:876)امام ابن قدامہ نے اس کے وجوب پر امت مسلمہ کا اجماع نقل کیا ہے۔ دیکھیے : (المغني:2/143)ترک جمعہ پر وعید: جس کام کی فضیلت بہت زیادہ ہو اس کے ترک پر وعید بھی بہت سخت ہوتی ہے۔ یہی معاملہ نمازجمعہ کا بھی ہے۔ زبان نبوت سے اس کے تارکین کے لیے سخت وعيدصادر ہوئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر اورحضرت ابو ہریرہسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے منبر کی سیڑھیوں پرکھڑے ہو کر فرمایا:”لوگ جمعے چھوڑنے سے باز آ جائیں ورنہ الله تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگادے گااور وہ یقینی طور پر غافلین میں سے ہو جائیں گے۔ (صحیح مسلم الجمعة حدیث:865)حضرت عبداللہ بن مسعودسے مروی ہے نبی اکرمﷺ نے فرمایا: (لقد هممت أن آمر رجلا يصلي بالناس، ثم أحرق على رجال يتخلفون عن الجمعة بيوتهم)میں نےارادہ کیا کہ ایک آدمی کوحکم دوں وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں ان لوگوں پر ان کے گھروں کو جلا دوں جو جمعہ کی نماز میں حاضر نہیں ہوتے۔ (صحیح مسلم المساجد حديث:652)حضرت ابو جعد ضمری سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (من ترك ثلاث جمع تهاونا بها طبع الله على قلبه )جوشخص غفلت اور سستی سے تین جمعے چھوڑ دےاللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔‘‘(سنن أبي داود الصلاة حديث:1052و سنن النسائي الجمعة حديث:1370)نماز جمعہ کا آغاز : جمہور کے نزدیک نماز جمعہ ہجرت کے بعد فرض ہوئی۔ ایک حدیث میں ہے کہ سب سے پہلا جمعہ ہجرت سے قبل پڑھایا گیا جوصحابی رسول حضرت اسعد بن زرارہ نے مدینہ منورہ سے ایک میل کے فاصلے پر’’حرہ بنی بیاضہ ‘‘میں پڑھایا۔ دیکھیے :(سنن ابن ماجه، إقامة الصلوات حدیث:1082) اس سے ثابت ہوا کہ اگرچہ اس کی باقاعدہ فرضیت ہجرت کے بعد ہوئی لیکن یہ ہجرت سے قبل مشروع ہو چکا تھا۔ صحابہ کرام نے نبی اکرم ﷺ کی رہنمائی یا اپنے اجتہاد سے اس کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ بعد ازاں ہجرت کے دور ہی میں اسے فرض قرار دے دیا گیا مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:(فتح الباري:2/356،355)فرضیت جمعہ کی شرائط : فرضیت جمعہ کی پانچ شرائط ہیں (1)آزادی(2)بلوغت(3) ذکوریت (مرد ہونا ) (4)اقامت(5) ادائیگی پر قدرت۔ غلام‘بچے‘ عورت‘ مسافر اور معذور پر جمعہ فرض نہیں۔ عذر میں بیماری شدیدبڑھاپا‘دشمن کا خوف ‘شدید بارش اور جسم یا منہ سے بو کا آنا وغیرہ ہے۔ حضرت طارق بن شہاب بیان فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ”جمعہ ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ لازمافرض ہے سوائے چارقسم کےلوگوں‘یعنی غلام‘ عورت ‘بچے اور مریض کے ۔‘‘(سنن أبي داود الصلاة حدیث:1067)مسافر پربھی جمعہ فرض نہیں کیونکہ نبی اکرمﷺ نے دوران حج جمعہ ادا نہیں کیا۔جمعے کےدن کرنے والے کام:نماز فجر میں سورہ سجدہ اور سورہ دہر کی قراءت: جمعہ کے دن نماز فجر کی پہلی رکعت میں سورہ سجده اور دوسری میں سورہ دہر پڑھنا مسنون ہے۔ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جمعےکے دن فجر کی نماز میں( الم تنزيل) اور (هل اتی على الإنسان ) پڑھا کرتے تھے۔(صحيح البخاري الجمعة حديث:891و صحیح مسلم الجمعة حديث:880)سورہ کہف کی تلاوت کرنا: جمعے کے دن سورہ کہف کی تلاوت کرنا مستحب ہے۔ نبی اکرم ﷺ نےفرمایا(إن من قرأ سورة الكهف يوم الجمعة أضاء له من النور ما بين الجمعتين )جس نے جمعے کے دن سورۃ کہف کی تلاوت کی اس کے لیے اگلے جمعے تک کا وقفہ نور سے روشن ہوجاتا ہے۔ (المستدرك للحاكم: 2/ 268)کثرت سے درود پڑھنا: جمعہ کے دن نبی اکرم ﷺ پر کثرت سے درود پڑھنا مستحب ہے۔حضرت اوس بن اوس سے مروی ہے نبی اکرمﷺ نے فرمایاتحقیق تمہارے دنوں میں سے افضل دن جمعہ ہے۔ اس میں آدم پیدا ہوئےاسی دن فوت ہوئے اور اسی دن صور پھونکا جائے گا۔ اسی دن بے ہوشی ہوئی ہوگی۔ اس دن تم مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو‘‘یقینا تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتاہے(سنن أبي داود الصلاة حديث:1047و سنن النسائي الجمعة حديث:1375)جمعۃ المبارک کےسنن وآدا:مسواک کرنا: حضرت ابوسعید سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا:” جمعے کے دن غسل کرنا ہر بالغ پر ضروری ہے اسی طرح مسواک کرنا بھی اور جو خوشبو اسے مل سکے لگائے خواہ وہ خوشبو عورت (اس کی بیوی) کی ہو۔(صحيح البخاري، الجمعة حديث:880 و صحیح مسلم الجمعة حدیث:(2)846)غسل کرنا :جمعۃ المبارک کے دن غسل واجب ہے۔ اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔حضرت ابوسعید خدری سےمروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاجمعہ کے روز غسل کرنا ہر بالغ پر واجب ہے۔(صحيح البخاري،الجمعة حديث:879 و صحیح مسلم الجمعة، حدیث:846)ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سےکوئی جمعےکے لیےآ ئے تو وہ غسل کرے۔(صحيح البخاري الجمعة حديث:877، وصحيح مسلم الجمعة حديث:844)مزید تفصیل کے لیے دیکھیے :(إحكام الأحكام شرح عمدة الأحكام مع حاشية: العدة حديث:131)جمہور اسے مستحب کہتے ہیں۔ ان کے منجملہ دلائل میں سے مضبوط ترین دلیل یہ ہے۔سیدنا سمرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: جس نے وضو کیا اس نے اچھا اور بہتر کیا اور جس نےغسل کیا تو یہ افضل ہے۔(سنن أبي داود الطهارة حديث:354و سنن النسائي الجمعة حدیث:1381) ان کے بقول یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ غسل جمعہ کاحکم استحبابی ہے ‘نیز پہلی حدیث میں وجوب سے مرادتاکید کیا ہے وجوب نہیں۔ جمہور علمائے کرام کا مذکورہ حدیث سے استدلال محل نظر ہے کیونکہ(ومن اغتسل فهو افضل) جس نے غسل کیا تو یہ ا فضل ہے۔“ کے الفاظ وجوب کے منافی نہیں، کسی چیز کی ا فضیلت سے اس کے وجوب کی نفی نہیں ہوتی کیونکہ حدیث کے معنی جیسا کہ بیان ہوا یہ ہیں:”جس نے وضو کیا اس نے اچھا اور بہتر کام کیا اور جس نے غسل کیا تو یہ افضل ہے۔‘‘اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں عمل ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ آپ نے پہلے وضو کے بارے میں فرمایاکہ وہ اچھا اور بہتر کام ہے کیا ان الفاظ سے وضو کی عدم فرضیت کی دلیل نہیں لی جاسکتی ہے جیسے اس کی فرضیت بلکہ شرطیت دیگر دلائل سے اخذ کی گئی ہے۔ یہی معاملہ غسل کا ہے۔ دوسرے اہل کتاب کے بارے میں کہا گیا ہے(ولو آمن أهل الكتاب لكان خيرا لهم )اگر اہل کتاب ایمان لے آتے یہ بیان کے لیے بہتر ہوتا ۔‘‘ کیا اہل کتاب ایمان لانے کے پابند اور مکلف نہ تھے یا صرف ان کے لیے قبول اسلام اور ایمان لانا ایک تر جیحا ترغیبی امرتھا جیسا کہ (لکان خيرا لهم) کے الفاظ سے متبادرہے؟ یقینا ان کے لیے قبول اسلام ایک امر لابدی تھا۔ بنابریں اس حدیث سےحکم استحبابی تاکیدی امر مرادلینا محل نظر ہے۔ والله أعلم. مزیدتفصیل کے لیے ملاحظہ فرمایئے: (محلی ابن حزم:2/14 و سنن النسائي اردو الغسل و التيمم:1/393،392طبع دار السلام)عمدہ لباس پہننا اور خوشبو لگانا:حضرت ابوسعید خدری اور حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا:”جس نے جمعے کے روز غسل کیا اور بہترین کپڑے زیب تن کیے اور اگر میسر ہو تو خوشبو بھی لگائی پھر جمعے کے لیے آیا اور لوگوں کی گردنیں نہ چھلانگیں پرنفل نماز پڑھی جو اس کے لیے مقدر کی گئی، پھر خاموش رہا جب امام(خطبے کے لیے) نکلاحتی کہ اپنی نماز سے فارغ ہوا تو یہ اسکے لیے اس جمعے اور سابقہ جمعہ کے مابین (صادر ہونےوالے گناہوں )کا کفارہ ہے۔‘‘(سنن أبي داود الطهارة حديث:343)نبی اکرم ﷺ نے ایک خاص لباس رکھا ہوا تھا جو آپ جمعۃ المبارک کے دن اور وفود کی آمد کے موقع پر پہنتے تھے۔دیکھیے : (الأدب المفرد حديث:348)جلد از جلد مسجد میں جانا:جمعۃ المبارک کے دن مسجد میں جلدی جانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کی بڑی فضیلت ہے۔ نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے:’’جب جمعے کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے دروازوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور یکے بعد دیگرے آنے والوں کے نام لکھتے ہیں۔ سب سے پہلے داخل ہونے والے (کے ثواب )کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے اونٹ کی قربانی دی‘ دوسرے کی ایسے جیسے کسی نے گائے کی قربانی دی ‘پھر مینڈھا‘ پھر مرغی اور پھرانڈا صدقہ کرنے کے برابر۔ اس کےبعد جب امام آ جاتا ہے تو فرشتے اپنے رجسٹر بند کر دیتے ہیں اورخطبہ سننے لگ جاتے ہیں۔(صحیح البخاري الجمعة حديث:929 وصحیح مسلم الجمعة حديث(24)850)پیدل چل کر جانا : نماز جمعے کے لیے پیدل چل کر جانا نہایت فضیلت والاعمل ہے۔ عبایہ بن رفاعہ فرماتے ہیں کہ میں جمعہ کے لیے جارہا تھا کہ( راستے میں) مجھے ابوعبس ملے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتےسنا:”جس کے قدم اللہ کے راستے میں غبار آلود ہوئے اللہ اس کو آگ پر حرام کردےگا۔(صحيح البخاري الجمعة حديث:907)حضرت اوس بن اوس سے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا’’جوآدمی جمعے کے دن غسل کرے ، اور اپنے جسم وغیرہ کو اچھی طرح دھوئے اور اول وقت جائے خطبہ شروع سےسنے‘پیدل جائے ‘سوار نہ ہو‘امام کے قریب بیٹھے خاموش رہے اور فضول بات نہ کرے تو اسے ہر قدم کے عوض ایک سال کے عمل(صیام و قیام) کا ثواب ملےگا۔(سنن النسائي الجمعة حديث:1385)حدیث میں بیان کردہ فضیلت صرف پیدل چل کر جانے کی نہیں بلکہ ان تمام کاموں کی ہے جن کا اس حدیث میں ذکرہے۔ اور ان کاموں میں ایک پیدل چل کر جانا بھی ہے لہذا اس کی بڑی فضیلت معلوم ہوئی۔جمعہ کے لیے دور دراز سے آنا:اگر آدمی کے قرب و جوار میں کوئی مسجد نہ ہو بلکہ کافی دور ہو تو پھر بھی جمعہ کی ادائیگی کے لیے حاضر ہونا چاہیے۔ اگر زیادہ سفر ہے تو اور بھی زیادہ ہی ملے گا“ صحابہ کرام دور دراز سے جمعے کے لیے حاضر ہوتے تھے۔ یہ باعث فضیلت عمل ہے لیکن ایسے شخص پر جمعے کے لیے حاضر ہونا جوب کی حیثیت نہیں رکھتا۔دیکھیے :(صحيح البخاري الجمعة حديث:902 اور اس کا باپ)امام کے قریب بیٹھنا:امام کے قریب بیٹھنا زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے دیکھیے :مذکورہ حدیث نیز امام کے قریب بیٹھنے والے شخص کی توجہ وعظ کی طرف زیادہ ہوگی اور وہ دور بیٹھنے والے کی نسبت زیادہ مستفید ہو گا۔ اور یہ جمعے کا بنیادی مقصد بھی ہے۔بیٹھنے کا انداز : مقتدیوں کو امام کی طرف منہ کر کے بیٹھنا چاہیے۔ بالکل سیدھا قبلہ رخ ہو کر بیٹھنا ضروری نہیں بلکہ صف کی دائیں بائیں جانب والے حضرات امام سے دور ہوں وہ امام کی طرف منہ کرکے بیٹھیں ‘چاہیے قبلے سےمنہ ہٹ بھی جائے حضرت ابوسعید خدری بیان فرماتےہیں (ان البنيﷺ جلس ذات يوم على المنبر وجلسنا حوله)نبی اکرمﷺ ایک دن منبر پر وعظ ونصیحت کےلیے)بیٹھے تو ہم آپ کےاردگرد بیٹھ گئے۔‘‘(صحيح البخاري، الجمعة حديث:921)امام بخاری نے نے اس حدیث پر یہ باب باندھا ہے: (باب استقبال الناس الإمام إذا خطب) جب امام خطبہ دے رہا ہو تو لوگ اس کی طرف منہ کر کے بیٹھیں۔‘‘خاموشی سے خطبہ سننا: خطبہ جمعہ نہایت توجہ اور انہماک سے سننا چاہیے۔ کیا قسم کی ناروا حرکت نہیں کرنی چاہئےیہاں تک کہ اگر کوئی آدمی بولتا بھی ہے تو اسے منع نہیں کرنا چاہیےپوری توجہ خطبے کے مضامین کی طرف ہونی چاہیے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:”جب تونے اپنے ساتھی سے جمعے کے دن کہاکہ چپ رہ جبکہ امام اس وقت خطبہ دے رہا ہو توتو نے لغو کام کیا۔(صحيح البخاري، الجمعة، حدیث934، وصحیح مسلم، الجمعةحدیث851)چند اہم مسائل:بارش کے دن جمعہ کی رخصت: بارش، طوفان آندھی یا اس کے علاوہ کسی اور عذر کی وجہ سےجمعے کے لیے حاضر ہونا نہایت مشکل ہوتو نماز جمعہ کی رخصت ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے ایک بارش والے دن اپنے موذن سے کہا: جب تو أشهد أن محمدا رسول الله کہے لے تو اس کے بعد حي على الصلاة نہ کہنا بلکہ صلوا في وبیوتکمکہنا لوگوں نے اسے کچھ عجیب محسوس کیا توفرمایا:۔کام اس عظیم ہستی (رسول اللہﷺ ) نے بھی کیا جو مجھ سے بہترتھی۔بلاشبہ جمعہ ایک عظیم الشان کام ہے لیکن میں ناپسند سمجھتا ہوں کہ تم کو حرج میں مبتلا کروں اور تم مٹی اورکیچڑ میں چل کر جمعے کے لیے آؤ۔( صحيح البخاري، الجمعة حديث:901 و صحیح مسلم صلاة المسافرين. حدیث:699)شدید گرمی میں جمعہ کچھ تاخیر سے پڑھنا : حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ جب سردی زیادہ ہوتی تو نبی اکرم ﷺ (جمعے کی) نماز جلدی پڑھتے اور جب گرمی زیادہ ہوتی تو آپ نماز جمعہ کی تاخیر سے پڑھتے۔ (صحیح البخاري الجمعة حديث:906)نماز جمعہ سے قبل سنتیں : نماز جمعہ سے قبل نوافل کی تعداد متعین نہیں۔ جو چار رکعات والی روایت ہے وہ ضعیف ہےاس لیے جتنی توفیق ملے اتنے پڑھ لیے جائیں۔ اگر وقت زیادہ ہو تو زیادہ پڑھے جاسکتے ہیں۔ اگر وقت کم ہو یا امام خطبہ دےرہاہوتوکم ازکم دو رکعت پڑھ کربیٹھے۔دیکھیے :(صحیح البخاري الجمعةحديث: 883،1166وصحيح مسلم الجمعة حديث:757۔875)اذ ان کا وقت: جمعے کے لیے اذان اس وقت دی جاتی ہے جب خطیب صاحب منبر پر تشریف فرما ہوجائیں۔ حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں: جمعہ کے دن اذ ان اس وقت دی جاتی تھی جب امام منبر پر بیٹھتا تھا۔ (صحیح البخاري الجمعة حديث:۹۱۵)یہ جمعے کی وہ اذان ہے جو دور نبوی میں ہوا کرتی تھی۔ ایک اذان اس سے پہلےہوتی ہے جس کا آغاز دورعثمانی میں ہوا۔ اس کا ذکر آگے آئے گا۔ دوران خطبہ نے والا کیا کرے؟: جو شخص دوران خطبہ آئے وہ دو رکعت پڑھے بغیر نہ بیٹھے۔ حضرت جابر بن عبداللهؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺخطبہ ارشادفرمارہے تھے کہ ایک آدمی آیا اور بیٹھ گیا۔ آپ نے اس سےپوچھا تو نے (دو رکعت )نماز پڑھی ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: کھڑا ہو اور دو رکعتیں پڑھ۔(صحيح البخاري، الجمعة حديث:931،و صحيح مسلم الجمعة حديث:875)ثابت ہوا کہ اگر چہ امام خطبہ دے رہا ہو دورکعتیں پڑھے بغیر نہیں بیٹھنا چاہیے۔ اس وقت بیٹھ جانا اورخطبے کے بعدسنتوں کا وقفہ دینا خلاف سنت ہے۔دوران خطبہ اونگھ آئے تو:اگر دوران خطبہ اونگھ آ جائے تو جگہ بدل لینی چاہیے خطبے کو توجہ اور انہاک سے سننا ضروری ہے ورنہ جمعے کی روح فوت ہو جاتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:”جب کسی کو جمعے کے دن (دوران خطبہ ) اونگھ آنے لگے تو اپنی جگہ بدل لے۔(سنن أبي داود الطهارة حدیث:1119و جامع الترمذي، الجمعةحديث:526)خطیب سے ہم کلام ہونا: کسی ضرورت کے پیش نظر سامعین میں سے کوئی بھی امام سے مخاطب ہوسکتا ہے۔ ایسےشخص پر اس وعیدکا اطلاق نہیں ہوگا جو دوران جمعہ کلام کرنے والے کے لیے ہے کیونکہ صحیح یہ حدیث سےثابت ہے کہ دوران جمعہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے کلام کیا تھا۔ اس نے آپ ﷺسے قحط سالی کی شکایت کی تھی توآپ نے خطبےکےدوران میں دعا کی۔ دیکھیے :(صحيح البخاري، الجمعة حديث:932و صحیح مسلم صلاة الاستسقاء حديث:897)رکعات جمعہ کی تعداد: جمعے کی نماز دو رکعت ہے۔ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ جمعے کی رکعات رسول اللهﷺ کی زبانی دو ہیں۔ (سنن النسائي الجمعة حديث:1421)نماز جمعہ میں قراءت: نماز جمعہ کی پہلی رکعت میں سورہ جمعہ اور دوسری میں سوره منافقون پڑھنامسنون عمل ہے۔دیکھیے :(صحیح مسلم الحمعة حديث:879)اسی طرح سورة اعلیٰ اور سورة غاشیہ کی قراء ت بھی ایک حدیث سے ثابت ہے۔ دیکھیے : (سنن النسائي الجمعة حديث:(1423)اس لیے دونوں احادیث پرعمل کیا جا سکتا ہے۔ دیکھیے :(صحيح مسلم الجمعة حديث:67)881)جمعے کےبعد سنتیں: جمعے کے بعد کی سنتوں کے بارے میں دو احادیث مروی ہیں۔ ایک حدیث میں چار اور ایک میں دو رکعتیں پڑھنے کا ذکر ہے۔ (صحیح البخاري، الجمعة حديث:937؛و صحیح مسلم الجمعةحديث:882) بنابریں دونوں طرح درست ہے اور وقتا فوقتا دونوں عمل کرناچاہیے۔ والله أعلماگر نماز جمعہ کی ایک رکعت ملے تو؟:اگر کوئی آدمی کسی وجہ سے دیر سے پہنچا اور اسے امام کے ساتھ ایک رکعت مل گئی تو اس کی وہ نماز جمعہ کی نماز شمار ہوگئی‘ اس لیے اسے صرف ایک رکعت مزید پڑھ کر سلام پھیر دیا چاہیے۔ جیسا کہ حضرت ابوہرہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (من أدرك من صلاةالجمعةرکعةفقدأدرك)جس نے نماز جمعہ کی ایک رکعت پالی تو اس نے(نماز جمعہ) پالی۔(سنن النسائي، الجمعة حديث:1426)سنن ابن ماجہ کی ایک روایت کے الفاظ ہیں:(فليصل إليها أ خری)وہ دوسری رکعت ساتھ ملائے۔(سنن ابن ماجة الجمعة حديث:1121)اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر اسے ایک رکعت سے کم جماعت کے ساتھ نمازملے تو اس کی نماز نماز جمعہ شمار نہیں ہوگی بلکہ اسے ظہر کی نماز چاررکعت پڑھنی چاہیے۔ اگر نماز جمعہ فوت ہو جائے تو؟:اگرکسی شرعی عذر کی بنا پر نمازجمعہ فوت ہو جائے تو پھرنمازظہر ادا کی جائے گی کیونکہ نماز جمعہ ایک اجتماعی عبادت ہے‘ فردا فردا ادا نہیں کی جاسکتی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودفرماتے ہیں کہ جس سے جمعے کی دو رکعتیں فوت ہو جائیں تو وہ چار رکعتیں پڑھے۔ (مجمع الزوائد:2/192، والأجوبة النافعة للألباني: ص:83) کسی صحابی سے اس کی مخالفت ثابت نہیں۔گویاصحابہ کرام کے نزدیک یہ اتفاقی مسئلہ ہے۔نماز جمعہ کا وقت: نماز جمعہ نماز ظہر کی قائم مقام ہے ‘اس لیے اس کا وقت بھی نماز ظہر والا یعنی زوال شمس ہی ہے۔جمہور صحابہ و تابعین اور ائمہ کرام کا یہی موقف ہے۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺاس وقت جمعہ پڑھاتے تھے جب سورج ڈھل جاتا تھا۔ (صحیح البخاريالجمعة حديث:904)حضرت سلمہ بن اکوع فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللهﷺ کے ساتھ نماز جمعہ ادا کرتے جب سورج ڈھل جاتا‘پھر واپس ہوتے تو بڑی جستجو سے سایہ تلاش کرتے۔ (صحیح مسلم الجمعة حديث:(31)۔860)بعض کے نزدیک زوال سے قبل بھی جمعہ پڑھا جاسکتا ہے۔یہ رائے امام احمد اور اسحاق کی ہے۔(المغني لابن قدامه:2/209-212، رقم المسئلة:1380، وسبل السلام2/139، بتعليق الألباني) تاہم راجح موقف یہی ہے کہ اس کا وقت زوال شمس کے بعد ہے۔ اس موقف کے دلائل واضح اور بے غبار ہیں۔ والله أعلم.جمعہ کی اذان : نبی اکرم ﷺ کے دور میں بعد ازاں حضرت ابوبکر ‘حضرت عمرؓ کے دور اور حضرت عثمان کےابتدائی دور میں نماز جمعہ کے لیے ایک ہی اذان دی جاتی تھی۔ دورعثمانی میں اہل مدینہ کی تعداد کافی زیادہ ہو چکی تھی۔ خرید وفروخت کے سلسلے میں وہ بازاروں میں زیادہ مصروف ہوگئے اور نماز جمعہ کے وقت پر نہ پہنچ پاتے تو حضرت عثمان نے خطبہ جمعہ والی اذان سے کچھ دیر پہلے ایک اذ ان کہلوانا شروع کر دی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ نماز جمعہ کا وقت قریب آ گیا ہے لہذا وہ جلدی جلدی اپنے کاروبار سمیٹ کر نماز کی تیاری کریں اور بروقت پہنچ سکیں۔ یہ اذان مدینہ منورہ کے بازار میں واقع ایک مقام‘ زوراء پر دی جاتی تھی۔ دیکھیے:(صحيح البخاري الجمعة حديث:912) اس وقت لاؤڈ سپیکر وغیرہ نہیں تھے‘ بازار میں شوروغل کی وجہ سے مسجد میں دی جانے والی اذان سنائی نہ دیتی تھی‘ اس لیے یہ اذ ان شروع کی گئی۔ آج لاوڈ سپیکر کی آواز دور دراز تک پہنچ جاتی ہے‘ لہذاجس غرض سے حضرت عثمان نے اس کا آغاز کیا وہ غرض بھی اس سے پوری ہو جاتی ہے اس لیے آج کل اس اذ ان کی ضرورت نہیں ‘اس لیے افضل یہی ہے کہ آج کل خطبے والی اذان ہی پر اکتفا کیا جائے۔اگر کہیں اس قسم کی ضرورت ہو تو وہاں یہ اذان دی جاسکتی ہے-والله أعلمنمازیوں کی تعدادکتنی ہو : نماز جمعہ کے لیے نمازیوں کی کوئی متعین تعداد شرط نہیں۔ بلکہ جتنے لوگوں کی باجماعت نمازہوسکتی ہے اتنے لوگوں پر جمعہ کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ بعض حضرات نے چالیس افراد کی قید لگائی ہے جو کہ درست نہیں۔ نبی اکرمﷺ نے بارہ افراد کو بھی جمعہ پڑھایا۔ حضرت جابر بیان فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺکھڑے جمعے کا خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ شام سے ایک تجارتی قافلہ آ گیا۔ سب لوگ جلدی سے قافلے کی طرف کھسک گئے اور صرف بارہ آدمی (خطبہ سنے کے لیے )باقی رہ گئے۔ (صحیح مسلم الجمعة حديث:۸۶۳) نیز سورہ جمعہ کی آخری آیت(وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا) میں بھی اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ ثابت ہوا چالیس افراد کی قید درست نہیں۔دیہات میں جمعہ :شریعت محمدی میں نماز جمعہ کے لیے دیہات اور شہر کا کوئی فرق نہیں۔ حدیث سے بستیوں میں جمعہ پڑھنا ثابت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللهﷺکی مسجد (مسجد نبوی) میں جمعےکے بعد سب سے پہلا جمعہ بحرین کے علاقے میں‘ قبیلہ عبدالقیس کی مسجد میں‘ ان کی بستی جواثیٰ میں پڑھایا گیا۔(صحیح البخاري، الجمعة حديث:892)سنن ابوداود کی روایت میں واضح طور پر(قرية)’’ بستی‘‘ کے الفاظ ہیں۔ علاوہ ازیں مدینہ منورہ خود بھی اس وقت ایک بستی ہی تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ دیہات میں نماز جمعہ بلاشبہ جائز ہے۔ بعض حضرات نے نماز جمعہ کے لیے شہر تجارتی منڈی اور شرعی جج وغیرہ کی قیودلگائی ہیں جن کا نماز جمعہ سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ ایسی قیودخودساختہ اورشریعت میں اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں۔احتیاطی ظہر : جن لوگوں نے نماز جمعہ کے لیے شہرکی شرط لگائی ہے وہ دیہات میں جمعے کے بعد احتیائی ظہربھی پڑھتےہیں کہ جمعہ تو ہمارا ہوا نہیں‘ لہذا ظہر پڑھ لیتے ہیں۔ یہ موقف متاخرین احناف کا ہے۔ ان سے سوال ہے کہ اگردیہات میں جمعہ نہیں ہوتا توپڑھاتے کیوں ہیں؟ اور اگر ہو جاتا ہے تو احتیاطی ظہر کے کیا معنی؟ دراصل یہ تقلیدشخصی کا کرشمہ ہے جس کی وجہ سے انسان ایک خاص اور محدود و نظر و فکر کا پابند ہوتا ہے اور براہ راست قرآن وحدیث پر غور نہیں کرتا‘ اگر غور تحقیق کرنے سے مسئلہ امام و مقتدی کے خلاف ہی جاتا ہو تب بھی امام کے قول پرچلنا اس کی مجبوری ہوتی ہے جس کے نتیجے میں اس طرح کے عجیب وغریب مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس مذکورہ تر ددوتذبذب اور تقلید کی روش پرکف افسوں ملنے کےسوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔"تقلید کی روش سے بہتر ہے خود کشی !"رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے"نماز جمعہ اور نماز عید اکٹھے ہو جائیں تو؟:اگر نماز جمعہ اور نماز عید اکٹھے ہو جائیں تو عید پڑھنے کے بعد نماز جمعہ کی رخصت ہے جو پڑھنا چاہے پڑھ لے‘یعنی جمعہ پڑھنا مستحب ہوگا۔ اور جو نہ پڑھے ‘وہ ظہر کی نماز ادا کرے تاہم امام کوچاہیے کہ وہ رخصت کی بجائے عزیمت پر عمل کرے تا کہ جمعہ اداکرنے والوں کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جناب ایاس بن ابور ملہ شامی کہتے ہیں کہ میں حضرت معاویہ بن ابوسفیان ؓان کے ہاں حاضر تھا اور وہ حضرت زید بن ارقم سے دریافت کر رہے تھے کہ کیا تمہارے ہوتے ہوئے رسول اللہﷺ کے دور میں کبھی دو عیدیں (جمعہ اور عید) ایک ہی دن میں اکٹھی ہوئی ہیں؟ انھوں نے کہا ہاں اس نے پوچھا تو تب آپ نے کیا کیا؟ انھوں نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ نے عید کی نماز پڑھی پھرجمعے کے بارے میں رخصت دے دی اور فرمایا: ”جوپڑھنا چاہتا ہے پڑھ لے۔(سنن أبي داود الصلاة حديث:1070و سنن النسائي العيدين حديث:1592)خطیب کے لیے چند آداب و احکام:خطیب کی جگہ : خطبہ جمعہ منبر یاکسی بلند جگہ کھڑے ہوکر دینا چاہیے جیسا کہ آج کل خطیب مساجد میں منبر پر خطبہ دیتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ پہلے منبر کے بغیر ہی ایک تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے۔ بعد میں آپ کے حکم سے آپ کے لیے منبر بنوایا گیا۔ اس کی تین سیڑھیاں تھیں۔ آپ آخری سیڑھی پر کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرماتےتھے۔منبر پر چڑھ کر سلام کہنا : حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوتے توسلام کہتے۔ (سنن ابن ماجه إقامة الصلوات حديث:1109 شیخ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔)حضرت ابوبکر صدیق‘ حضرت عمر فاروق‘ حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبد الله بن زبیر اورحضرت عمر بن عبدالعزیزکا بھی یہی عمل تھا۔ دیکھیے: (شرح السنة:4/243،242)اذان کاجواب دینا: امام کو بھی منبر پر اذان کا جواب دینا چاہیے۔ حضرت معاو یہ ایک دن منبر پر تشریف فرماہوئے تو مؤذن نے اذان شروع کی۔ آپ نے اذان کا جواب دیا پھر فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو اس جگہ (منبر پر) اسی طرح اذان کا جواب دیتے سنا۔ (صحیح البخاري، الجمعة حدیث:914)کھڑے ہو کر خطبہ دینا : خطبہ کھڑے ہو کر دینا مسنون ہے۔ بلاوجہ بیٹھ کر خطبہ دینا درست نہیں۔ حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے پھر بیٹھ جانے پھر کھڑےہوتے اور (دوسرا) خطبہ ارشادفرماتے۔ (پھر فرماتے ہیں) جس نے مجھے یہ خبردی کہ نبی ﷺ بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے اس نےجھوٹ بولا۔ اللہ کی قسم میں نے آپﷺ کے ساتھ دو ہزار سے زیادہ نمازیں پڑھی ہیں۔ (صحیح مسلم الجمعة حديث: (35)۔862) مزید دیکھیے : (صحيح البخاري الجمعة حديث:920و سنن النسائي حديث:1398)عصا کا سہارا لینا: خطیب کو چاہیے کہ وہ خطبہ دیتے وقت عصا وغیرہ کا سہارا لے کر کھڑا ہو۔نبیﷺخطبہ دیتے وقت عصا کا سہارا لیتے تھے۔ دیکھیے :(سنن أبي داود الطهارة حديث:1096)خطبے دو یا تین؟: نبی اکرم ﷺ سے دو خطبے ہی ثابت ہیں۔ تیسرا خطبہ آپ سے ثابت نہیں۔ یہ سراسر بدعت ہے۔ حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ دو خطبے ارشاد فرماتے تھے اور ان دونوں کے درمیان کچھ دیر بیٹھتے تھے، نیز اور خطبوں میں قرآن کی تلاوت فرماتے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے۔ (صحیح مسلم الجمعة حديث: (34)-862)غیر عربی میں خطبہ جائز ہے؟: تیسرے خطبے کے جواز کے لیے یہ عذر بیان کیا جاتا ہے کہ دو خطبے عربی میں دینا لازمی ہیں۔ تیسرا خطبہ ہم عوام کی زبان میں مسائل سمجھانے کے لیے دیتے ہیں۔ لیکن یہ عذر درست نہیں کیونکہ عربی میں خطبے دینا ضروری نہیں بلکہ دونوں خطبے اسی زبان میں دیے جائیں جسے عوام سمجھتے ہوں وہ زبان خواه اردو ہو یا ہندی ‘پشتو‘ ہو یا پنجابی اور فاری ہو یا انگلش وغیرہ۔ نبی اکرمﷺعربی میں خطبے اس لیے دیتے تھے کہ عوام کی زبان عربی تھی۔ اس مسئلے کی مزید تفصیل کے لیے’’جمعۃ المبارک کے مسائل ‘‘از منیر قمر دیکھی جاسکتی ہے۔اجزائے خطبہ: خطبہ جمعہ عمومامندرجہ ذیل اجزاء پر مشتمل ہونا چاہیے(1) حمدوثنائے باری تعالیٰ۔(2) ذکر شہادتین۔ (3)امابعد کہنا۔(4) قرآن کریم کی بعض آیات کی تلاوت۔(5) لوگوں کو وعظ و نصیحت۔(6) مسلمانوں کے لیے دعا۔ نبی اکرمﷺ کا خطبہ عموما انہی امور پرمشتمل ہوتا تھا۔کیفیت اشارہ: خطبہ جمعہ کے دوران میں بات سمجھانے کے لیے بامقصد اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ نبی اکرم ﷺکا اشارہ کرنے کا اندازیہ تھا کہ آپ صرف اپنے دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت سے اشارہ کرتے تھے۔ بلاضرورت دونوں ہاتھ ہوا میں لہراتے رہنا مناسب نہیں۔ حضرت عمارہ بن رویبہ ہونے بشر بن مروان کو منبر پر خطبے کے دوران میں دونوں ہاتھوں سے اشارہ کرتے دیکھا تو فرمایا: الله تعالیٰ ان ہاتھوں کو بھلائی سے دور کرنے میں نے رسول اللہﷺ کودیکھا آپ صرف شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔ (صحیح مسلم الجمعة حديث: (53)-874)کسی عارضے کے باعث خطبے کا تسلسل توڑ دینا :کسی شدید ضرورت کے پیش نظر خطبے کاتسلسل توڑ دینا منبر سے نیچے اترجانا موضوع سے ہٹ کر کوئی اور بات کر لینا اور پھر جہاں سے چھوڑا وہیں سے خطبہ شروع کر لینا جائز ہے۔ کئی ایک احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے مثلا: حضرت بریده بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ حضرت حسن و حسین ؓ تشریف لائے۔ وہ سرخ قمیص پہنے ہوئے تھے اور اس میں لڑکھڑاتے ہوئے آرہے تھے۔ نبی اکرمﷺنے خطبہ روک دیانیچے اترے انھیں اٹھایا اور پھر منبر پر تشریف فرما ہو گئے اور فرمایا: اللہ رب العزت نےسچ فرمایا: ”بلاشبہ تمہارے مال اور تمھاری اولاد فتنہ ہیں۔ میں نے انھیں قمیصوں میں لڑکھڑاتے دیکھا تو صبر نہ کرسکا یہاں تک کہ میں نے خطبہ روکا اور انھیں اٹھایا۔(سنن أبي داود الصلاة حديث:1109و سنن النسائي الجمعة حديث:1414)خطبے کا دورانیہ: خطبے کا دورانیہ مختصر ہونا چاہیے۔ لمبا خطبہ دینا درست نہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا( إن طول صلاةالرجل وقصرخطبيته، مئنة منه من فقهه، فأطيلوا الصلاة واقصروا الخطبة) ’’نمازکالمبا ہونا اور خطبے کا مختصر ہونا آدمی کی فقاہت ( سمجھداری )کی علامت ہے لہذا نماز لمبی پڑھو اور خطبہ مختصردو۔ (صحیح مسلم الجمعة حديث: (47)-869)اس بات کا خیال رہے کہ یہاں خطبے اور نماز کا آپس میں تقابل نہیں بلکہ مطلق نماز لمبی اور خطبہ مختصر دینے کاحکم ہے ۔دوران خطبہ دعا کرنا: اگر کوئی آدمی دوران خطبہ دعا کی درخواست کر دے تو دعا کی جاسکتی ہے جیسا کہ نبی ﷺسےایک اعرابی نے دوران خطبہ قحط سالی کی شکایت کی تو آپ نے اسی وقت دعا فرمائی۔دیکھیے(صحيح البخاري الجمعة حديث:933،932و صحیح مسلم الجمعةحديث:897)دوخطبوں کے درمیان بیٹھنا:د وخطبوں کے درمیان کچھ دیر کے لیے بیٹھنا سنت ہے یعنی خطیب ایک خطبے کے بعد کچھ دیر کے لیے بیٹھ جائے پھر اٹھ کر دوسرا خطبہ دے۔ دیکھیے : (صحيح مسلم الجمعة حديث: (35)۔862)ممنوعہ اعمال و حرکات:گردنیں پھلانگ کر آگے جانا: جب اگلی صفوں میں جگہ نہ ہوتو لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر پہلی صفوں میں آنا ممنوع ہے۔ جسےپہلی صف میں اور امام کے قریب ہونے کا زیادہ شوق ہو وہ جلدی آئے ورنہ جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جائے۔دیر سے آنا اور پہلے سے بیٹھے ہوئے لوگوں کو پریشان کرنا غیرمہذب حرکت ہے۔ حضرت عبداللہ بن بسر بیان فرماتے ہیں کہ (رسول اللہﷺ کے دور میں) ایک آدمی لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا تو آپﷺنے فرمایا: ”او!بیٹھ جاؤ تم نے لوگوں کو اذیت دی ہے۔(سنن النسبالي الجمعة حديث:1400) دو آدمیوں کے درمیان جدائی ڈالنا: دوآدمی بیٹھے ہیں۔ ان کے درمیان تیسرے آدمی کی جگہ نہیں لیکن بعد میں کوئی آدمی آئے اور ان دونوں کے درمیان جگہ بنانے کی کوشش کرے۔ یہ ممنوع ہے اور بدتہذیبی ہے کیونکہ اس سےدونوں آدمیوں کو تکلیف ہوگی ۔ عبادت اس طرح کرنی چاہیے کہ کسی کو تکلیف نہ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ زیادہ ثواب کی کوشش میں آدمی کم ثواب سے بھی محروم ہو جائے اور الٹا گناه لے کر واپس لوٹے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ دیکھیے :(صحيح البخاري الجمعة حدیث:910)کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ بیٹھنا:کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ بیٹھ جانا درست نہیں ہے خطبہ جمہ ہو یا کوئی اورمجلس ۔ اگرشاگرد یا کوئی بچہ ‘بزرگ یا استاد کو احتراما اپنی جگہ دےدے تو اور بات ہے۔ لیکن بزرگ اس وجہ سے لیٹ آنے کو اپنا شیوہ نہ بنالے کہ مجھے کوئی نہ کوئی آگے جگہ دے ہی دے گا۔ حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمرؓسےسنا وہ فرمارہے تھے کہ نبی اکرمﷺنے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ آدمی کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ پربیٹھ جائے۔ ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے نافعسے پو چھا جمعے کے دن (خطبے کے موقع پر؟)تو انھوں نے کہا:جمعہ اور غیرجمعہ میں۔(صحيح البخاري الجمعة حديث:911وصحيح مسلم السلام حديث:(27)۔2177)نماز جمعہ سے قبل حلقے بنانا:نمازجمعہ سے قبل حلقے بنانا منع ہے۔ حلقوں سے مرادیا توتعلیمی وتبلیغی حلقے ہیں کیونکہ اس سے خطبہ جمعہ کی اہمیت کم ہو جاتی ہے یا باتیں یا اجتمائی ذکر وغیرہ کے حلقے مراد ہو سکتے ہیں۔ یہ مراد ہے کہ جمعے سےقبل خطبہ سننے کے لیے مختلف حلقوں میں نہ بیٹھیں بلکہ ایک ہی حلقہ امام کے گرد بنائیں۔ یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ خطبےکے لیے حلقہ نہ بنایا جائے بلکہ صفوں میں بیٹھ کر امام کی طرف منہ کیا جائے۔ بہرحال جمعے سے قبل حلقےبنانادرست نہیں۔ دیکھیے:(سنن النسائي المساجد حدیث:715)گوٹھ مار کر بیٹھنا: خطبہ جمعہ کے دوران میں گوٹھ مار کر بیٹھنا منع ہے۔ حضرت معاذ بن انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے جمعے کے دن جب امام خطبہ دے رہا ہو گوٹھ مار کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن أبي داود الصلاة حديث:1110) اس کی صورت یہ ہے کہ آ دی گھٹنے کھڑے کر کے سینےکے قریب کر لے اور ہاتھوں سے ان کےگرد حلقہ بنالے۔ اس طرح بیٹھنا غفلت اور بے پروائی کی علامت ہے‘ نیز اس طرح نیند بہت جلد آتی ہے۔ نتیجتا خطبہ فوت ہو جاتا ہے۔ اگر تہبند باندھا ہو تو ستر کھلے کا بھی اندیشہ رہتا ہے۔لغو حرکات: خطبہ جمعہ کے دوران میں کسی قسم کی بے فائدہ حرکت مثلا: ڈاڑھی یا کپڑوں کے ساتھ کھیلنا‘ انگلیاں چٹخنا‘تنکوں سے کھیلتے رہنا‘ درست نہیں ہے۔ خطبہ جمعہ نہایت توجہ اور انہماک سے سنا ضروری ہے یہاں تک کہ بولنےوالے کو چپ کرانا بھی درست نہیں۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:”جب تو کسی (بولنے والے ) کو کہے کہ چپ ہو جا! تو تو نے لغو حرکت کی ۔(صحیح البخاري، الجمعة حديث:934وصحیح مسلم الجمعة حديث:(851) کیونکہ اگر توجہ خطبے کی طرف نہیں ہوگی تو کچھ حاصل نہیں ہوگا اور خطبہ جمعہ کا مقصد فوت ہوجائے گا۔نماز جمعہ کے متصل بعد نوافل پڑھنا: نماز جمعہ سے فراغت کے فورا بعد اسی جگہ سنتیں نہیں پڑھنی چاہئیں۔ جگہ تبدیل کر لی جائے یا کسی سے بات چیت کر لیا جائے بعد ازاں سنتیں ادا کی جائیں دیگر نمازوں کا بھی یہی حکم ہے۔ دیکھیے(صحیح مسلم الجمعة حديث:883)خاص اس دن کا روزہ رکھنا: حضرت ابو ہریرہﷺ بیان فرماتے ہیں نبی اکرمﷺنے فرمایا( لايصوم أحدكم يوم الجمعة إلا يوما قبله أو بعده)تم میں سے کوئی جمعے کے دن روزہ نہ رکھے الا یہ کہ وہ اس سے ایک دن پہلےیا بعد کا روزہ بھی ساتھ رکھے۔(صحيح البخاري الصوم، حدیث:1985و صحیح مسلم الصيام حديث:(147)۔1144)خرید وفروخت: جمعہ کی اذان کے بعد خرید وفروخت منع ہے۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ)(الجمعة:62: 9)’’اے ایمان والو! جب جمعے کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو سب اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑدو۔یہ تمہارےحق میں بہت ہی بہتر ہے اگرتم جانتے ہو۔ ‘‘
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب جمعے کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے دروازوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور جمعۃ المبارک کے لیے آنے والوں کے نام لکھتے ہیں۔ جب امام خطبے کے لیے نکلتا ہے تو فرشتے اپنے رجسٹر بند کر لیتے ہیں۔“ (راویٔ حدیث) حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جمعے کے لیے سب سے پہلے آنے والا (کعبے کی طرف) قربانی کے لیے اونٹ بھیجنے والے کی طرح ہے۔ پھر اس کے بعد آنے والا (کعبے کی طرف) قربانی کے لیے گائے بھیجنے والے کی طرح ہے۔ پھر اس کے بعد آنے والا (کعبے کی طرف) قربانی کے لیے بکری بھیجنے والے کی طرح ہے۔ پھر اس کے بعد آنے والا (کعبے کی طرف) قربانی کے لیے بطخ بھیجنے والے کی طرح ہے۔ پھر اس کے بعد آنے والا (کعبے کی طرف) قربانی کے لیے مرغی بھیجنے والے کی طرح ہے۔ پھر اس کے بعد آنے والا (کعبے کی طرف) قربانی کے لیے انڈا بھیجنے والے کی طرح ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”فرشتے“ یہ مخصوص فرشتے ہیں جو صرف جمعے سے قبل آنے والوں کے نام اور ثواب لکھنے کے لیے مقرر ہیں۔ (عموماً اعمال لکھنے والے فرشتے تو ہر وقت لکھتے رہتے ہیں۔) پھر یہ خطبہ بھی سنتے ہیں۔ اس سے جمعۃ المبارک کی عظمت ظاہر ہوتی ہے، اسی لیے اس دن کو قرآن مجید میں ”شاہد“ کہا گیا ہے اور اگر اس سے عام ”کراما کاتبین“ مراد ہوں تو پھر جمعۃ المبارک کے لیے خطبے سے پہلے آنے والوں کے لیے مخصوص رجسٹر ہوں گے جنھیں خطبہ شروع ہونے سے قبل بند کر دیا جاتا ہے۔ اس میں پہلے آنے والوں کی عظیم فضیلت ہے کہ ان کی حاضری کے لیے فرشتے دروازوں پر آکر بیٹھتے ہیں۔ ﴿ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ﴾۔ (2) ”سب سے پہلے آنے والا“ بعض علماء کا خیال ہے کہ فرشتوں نے خطبے سے پہلے کچھ اوقات مقرر کر رکھے ہوں گے۔ ان اوقات کے لحاظ سے لوگوں کے درجات بنتے ہوں گے ورنہ ظاہراً تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے آنے والے صرف چھ سات افراد کے نام لکھے جاتے ہیں مگر یہ درست نہیں کیونکہ ممکن ہے بیک وقت کئی افراد داخل ہوں، لہٰذا اوقات کا تقرر ہوگا مگر ان اوقات کی تفصیل کسی حدیث میں نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ علماء کے مابین اس بارے میں اختلاف ہے۔ جمعے کے لیے جلدی نکلنا بالاتفاق مستحب ہے لیکن اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ حدیث میں وارد پانچ گھڑیوں سے مراد کیا ہے؟ کیا پانچ یا چھ گھڑیوں سے مقصود صرف وقت کے چند اجزاء ہیں یا وہ معروف گھڑیاں ہیں جن میں دن رات ۲۴ گھنٹوں میں تقسیم ہوتے ہیں؟ جمہور علماء و فقہاء اس سے مراد معروف زمانی ساعات (گھنٹے) لیتے ہیں۔ امام شافعی، امام احمد، سفیان ثوری اور امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ وغیرہ کی یہی رائے ہے۔ ایک دن میں بارہ گھڑیاں ہوتی ہیں جیسا کہ اس کی تائید حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہوتی ہے کہ جمعے کے دن کی بارہ گھڑیاں ہوتی ہیں۔ اس کی سند صحیح ہے۔ (سنن أبي داود، لاصلاة، حدیث: ۱۰۴۸، و صحیح سنن أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث: ۹۶۳) اس لحاظ سے ان کے ہاں سورج کے بلند ہونے سے پہلی گھڑی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس طرح زوال شمس تک، وقت کے اس دورانیے کو پانچ گھڑیوں میں تقسیم کر لیا جائے، خواہ پہلی گھڑی گھنٹے پر مشتمل ہو یا سوا یا ڈیڑھ گھنٹے پر کیونکہ گرمی سردی کے اعتبار سے وقت کے لحاظ سے گھڑیوں میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے لیکن دن کبھی بارہ گھڑیوں سے کم نہیں ہوتا۔ اس طرح پہلی گھڑی میں آنے والے افراد، خواہ تعداد میں زیادہ ہی ہوں، وہ اونٹ کی قربانی کا ثواب پائیں گے۔ اسی طرح ترتیب وار دیگر گھڑیوں میں آنے والے حضرات بھی اسی حساب سے ثواب میں شریک ہوں گے۔ ”الساعۃ“ کے عرف میں بھی یہی معنیٰ متبادر ہیں۔ دوسرا موقف امام مالک رحمہ اللہ اور بعض شوافع کا ہے۔ ان کے نزدیک احادیث میں وارد ساعات سے مراد معروف گھڑیاں نہیں بلکہ زوال کے بعد چند لحظات یا لمحات ہیں، یعنی زوال کے بعد چھٹی گھڑی کے یہ چند اجزاء یا لمحات ہوتے ہیں جن میں فرشتے آنے والوں کے ترتیب وار نام لکھتے ہیں۔ اس دعوے کی ان کے پاس چند دلیلیں ہیں: پہلی دلیل: حدیث میں لفظ [راح] (فعل ماضی) استعمال ہوا ہے جس کے معنیٰ بعد از زوال جانے یا روانہ ہونے کے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعد از زوال جلدی نکلنے کی ترغیب ہے نہ کہ دن کے آغاز میں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ لفظ راح صرف بعد از زوال جانے پر نہیں بولا جاتا، بلکہ مطلق جانے پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے، خواہ جانا کسی وقت بھی ہو، یہ اہل حجاز کی لغت ہے، جیسا کہ امام زہری رحمہ اللہ نے کہا ہے، لہٰذا سفر دن کے آغازم یں یا آخر میں یا رات کے وقت ہو، اس پر یہ لفظ بولا جاتا ہے، اس کی بعد از زوال وقت کے ساتھ تخصیص درست نہیں۔ دوسری دلیل: حدیث میں وارد لفظ [الھجر] ہے، نیز اس حدیث میں بجائے ساعات کے لفظ [ثم] استعمال ہوا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کے بعد آئیں، اور اس میں گھڑیو کا ذکر نہیں ہے۔ اور [المھجر، تھجیر] سے مشتق ہے جس کے معنی عین دوپہر کا وقت ہیں جسے عربی میں الھاجرۃ کہتے ہیں۔ اس سے بھی پتہ چلا کہ آغاز دن مراد نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جن روایات میں ساعات کا ذکر ہے، وہ مفصل ہیں اور لفظ [ثم] کے ساتھ منقول حدیث مبہم ہے۔ قاعدے کی رو سے مجمل کو مفصل پر محمول کیا جاتا ہے، یعنی جو وضاحت مفصل میں ہوتی ہے، اسے ہی لینا ضروری ہے، اس لیے الساعات کی تصریح سے منقول روایات مقدم ہیں، نیز سب طرق و روایات میں صرف لفظ [الھجر] ہی نہیں آتا بلکہ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ بعض میں لفظ [غدا] اور بعض میں [المتعجل] ”جلدی کرنے والے“ کے الفاظ وغیرہ بھی ہیں۔ اس سے لفظ [المھجر] کے معنی متعین ہو جاتے ہیں، نیز لغت میں یہ لفظ تبکیر و تعجیل کے معنی میں بھی آتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ اس کے معنی میں عین دوپہر یا شدید دھوپ میں نکلنے کے بھی آتے ہیں لیکن لغت کی روشنی میں تبکیر و تعجیل کے معنی سے بھی مفر نہیں، بلکہ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہاں اسی مؤخر الذکرمعنی میں استعمال ہوا ہے۔ تیسری دلیل: لفظ [الساعة] معروف گھنٹے کے معنی میں نہیں بلکہ زمانے یا وقت کے ایک جز یا حصے پر بولا جاتا ہے۔ اردو میں اس کے معنی ”گھڑی“ کے کیے جاتے ہیں، یہ عام ہے، خواہ تھوڑے وقت کو محیط ہو یا زیادہ کو، اسی لیے اس کے معنی لمحے یا لحظات کیے جاتے ہیں۔ اس کا جواب تین طرح دیا جا سکتا ہے: (1) شرعاً ایک دن کے بارہ گھڑیوں میں تقسیم ہونے کا ذکر ملتا ہے جیسا کہ سنن ابی داود کی حدیث میں ہے۔ زیر بحث مسئلے میں اس سے تائید لی جا سکتی ہے۔ (2) عرف میں بھی الساعۃ کے متبادر معنیٰ یہی ہیں جو جمہور مراد لیتے ہیں۔ (3) اگر الساعات سے مراد چھٹی گھڑی کے چند لمحات یا لحظے ہی ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پانچ گھڑیوں کے ذکر کے کیا معنیٰ ہیں؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے مراد وہی پانچ گھڑیاں ہیں جو بارہ گھڑیوں کا حصہ ہیں۔ جن پر، گرمی ہو یا سردی، ایک دن محیط ہوتا ہے۔ چوتھی دلیل: اگر احادیث میں وارد ساعات سے مراد چند لمحے یا لحظات مراد نہ ہوں تو اس سے ان گھڑیوں کی طوالت لازم آتی ہے، یعنی ان گھڑیوں کا دورانیہ لمبا ٹھہرتا ہے جس سے، سابق اور لاحق، یعنی پہلے اور بعد میں آنے والوں کا فرق ختم ہو جاتا ہے، اور ان گھڑیوں میں یکے بعد دیگرے آنے والوں کی فضیلت میں برابری اور یکسانیت لازم آتی ہے، مثلاً: پہلی گھڑی اگر ایک یا سوا گھنٹے پر مشتمل ہو تو ممکن ہے اس گھڑی میں وہ چار یا آٹھ دس آدمی یکے بعد دیگرے آئیں۔ اسی طرح باقی گھڑیوں میں بھی یہ ہوتا ہے یا اس کا قوی امکان ہے۔ کیا اس گھڑی میں آنے والے ان تمام افراد کو اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہے یا صرف ان کو جو ان میں سے پہلے آئے اور بس؟ اسی اعتراض سے بچنے کے یے امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ ان سے مراد چند لمحات یا لحظات لیتے ہیں۔ اس اشکال کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اگرچہ پہلی گھڑی میں یکے بعد دیگرے آنے والے تمام افراد نفس اونٹ کی قربانی کا ثواب تو پاتے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے، لیکن اس سے ہر لحاظ سے اونٹ کی قربانی میں تمام افراد کی برابری اور یکسانیت لازم نہیں آتی، وہ اس طرح کہ جو سب سے پہلے آئے اسے خوب موٹے تازے فربے اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہو، جو اس کے بعد آئے اسے اس سے کم تر اور جو اس کے بعد آئے اسے اس سے کمزور یا کم تر اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہو، یعنی مذکورہ تفاوت اور فرق یا اختلاف مراتب نفس اونٹ وغیرہ کی ذات کی بنا پر تو نہ ہو بلکہ ان کی صفات میں ہو اور برابری صرف اونٹ وغیرہ کی ذات کی حد تک ہو جیسا کہ ذکر ہوا، اور یہی بات درست ہے۔ حدیث کو اس طرح سمجھنے سے اشکال و اعتراض رفع ہو جاتا ہے۔ واللہ أعلم۔ پانچویں دلیل: اہل مدینہ کا عمل اس کے برعکس تھا۔ وہ آغاز دن ہی سے نہیں آتے تھے بلکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کا بھی یہ عمل نہ تھا، اس لیے اگر حدیث میں وارد لفظ الساعات سے جمہور والی گھڑیاں مراد لی جائیں تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نیکی کی شدید رغبت و حرص کے باوجود اول النہار حاضر نہ ہوتے تھے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں ساعات سے مراد زوال کے بعد چھٹی گھڑی کے چند مختصر لمحے یا لحظے ہی ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اہل مدینہ کل امت نہیں کہ ان کا اتفاق یا عدم عمل قابل حجت اور اجماع کی حیثیت کا حامل ہو۔ پھر اول النہار مسجد کی طرف جانا بھی تو کوئی واجبی عمل نہیں، بلکہ بعض دیگر امور دینی یا دیگر مصالح اس عمل سے کہیں زیادہ اہمیت و فضیلت کے حامل ہوتے ہیں، اس لیے اسے ترک کیا جا سکتا ہے اور یہ جائز ہے۔ اس سے یہ نہیں نکلتا کہ اس درجہ تعجیل ان کے ہاں مکروہ یا ناجائز تھی۔ یقیناً جو آدمی نماز فجر پڑھ کر اسی جگہ ذکراذکار میں مشغول رہے اور سورج طلوع ہونے کے بعد دو رکعت پڑھ لے، وہ اس آدمی سے جو صرف اشراق ہی پڑھتا ہے، کہیں زیادہ فضیلت اور ثواب کا حامل ہے۔ اسی طرح وہ آدمی، جو نماز فجر کی ادائیگی کے بعد غسل وغیرہ کرے اور تیار ہو، اور اشراق پڑھ کر نماز جمعہ کے انتظار میں بیٹھا رہے، یقیناً اس شخص کی نسبت یہ کہیں زیادہ فضیلت پاتا ہے جو خطیب کے آنے سے صرف چند لمحے قبل مسجد میں پہنچتا ہے، جبکہ احادیث کی روشنی میں اس طرح انتظار کرنے والے کو بدستور نماز کی حالت میں شمار کیا گیا ہے۔ بلاشبہ ایسے آدمی کی فضیلت کا کسی کو انکار نہیں اور نہ ہونا چاہیے۔ اس قسم کے اعمال کی مشروعیت عمومی دلائل و احادیث سے اخذ ہوتی ہے۔ کی صحابی یا تابعی کے عدم عمل یا ان کے متعلق عدم نقل کی بنا پر اسے رد نہیں کیا جا سکتا۔ واللہ أعلم۔ چھٹی دلیل: اگر حدیث میں موجود الساعات کو فلکی ساعات، یعنی گھنٹوں کے معنیٰ میں لیا جائے تو اس صورت میں خطیب کا قبل از زوال نکلنا لازم آتا ہے۔ وہ اس طرح کہ آفتاب کے بلند ہونے سے امام کے خروج سے قبل تک، وقت کے دورانیے کو پانچ گھڑیوں میں تقسیم کیا جائے تو پانچویں گھڑی کے بعد خروجِ امام کا ذکر ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے۔ یہ چھٹی گھڑی کا ابتدائی اور قبل از زوال کا وقت ہوتا ہے۔ اور جمہور کے نزدیک قبل از زوال نماز جمعہ درست نہیں۔ لیکن جن کے نزدیک یہ جائز ہے ان کے لیے یہ حدیث قابل اعتراض نہیں بلکہ ان کے حق میں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: اس حدیث کے کسی طریق میں امام کے اول النہار نکلنے کا ذکر نہیں ہے ہوسکتا ہے پہلی گھڑی نہانے اور جمعے کی تیاری وغیرہ کے لیے ہو۔ اور مسجد میں آنا دوسری گھڑی کے آغاز میں ہو۔ اس طرح دن کے اعتبار سے یہ دوسری گھڑی ہوگی اور جانے کے اعتبار سے پہلی۔ بنا بریں پانچویں گھڑی کے آخری لحظے زوال کے ابتدائی لمحات ہوں گے۔ (فتح الباري: ۳۶۸/۲) الغرض مذکورہ معروضات سے واضح ہوتا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کا موقف مرجوح ہے۔ جمہور علماء کے دلائل قوی اور قرین قیاس ہیں۔ اگرچہ قرآن و حدیث کی روشنی میں حدیث میں منقول ساعات کی واضح طور پر تحدید مشکل ہے لیکن فریق مخالف کے مقابلے میں جمہور کی رائے ہی مضبوط ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق بھی یہی ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (إحکام الأحکام شرح عمدة الأحکام لابن دقیق العبد، مع حاشیة العدة: ۵۳۱-۵۲۲/۲، وزاد المعاد: ۴۰۷-۳۹۹/۱ بتحقیق شعیب الأرناؤط، و فتح الباري: ۳۷۰-۳۶۶/۲، رقم الحدیث: ۸۸۱، و مرعاة المفاتیح: ۲۹۵-۲۹۳/۲، طبعه أولی، و موسوعه فقھیه از حسین بن عوده: ۳۶۲/۲) (3) رجسٹر بند ہونے کے بعد آنے والے سبقت کے ثواب سے محروم رہتے ہیں مگر انھیں جمعے کی حاضری، خطبے کے سماع، نماز میں شرکت اور ذکر و دعا وغیرہ کا ثواب ملتا ہے۔ لیکن درجات میں فرق پڑ جاتا ہے۔ (4) بعض لوگ اس حدیث سے اس بات پر استدلال کرتے ہیں کہ مرغی کی قربانی بھی جائز ہے لیکن اگر اس استدلال کو درست سمجھ لیا جائے تو پھر انڈے کی قربانی کا جواز بھی تسلیم کرنا پڑے گا، جسے یہ خود بھی تسلیم نہیں کرتے۔ بنا بریں یہ استدلال درست نہیں۔ اس حدیث میں مذکورہ چیزوں کی قربانی سے مراد وہ اجر و ثواب ہے جو ان چیزوں کے صدقہ کرنے سے ملتا ہے، اسی لیے بعض لوگ [مھدی] کے معنیٰ ہی ”صدقہ کرنے والا“ کرتے ہیں۔ بہرحال جو معنیٰ بھی کیے جائیں، اس سے مرغی یا انڈے کی قربانی کا جواز کشید کرنا یکسر غلط ہے۔ (5) ادنیٰ سی چیز بھی اللہ کی راہ میں دینے سے ہچکچانا نہیں چاہیے۔ اخلاص کے ساتھ دی ہوئی معمولی سی چیز بھی عنداللہ بہت زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ن فرمایا: ”آگ سے بچو، چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے (کے صدقے) کےساتھ ہی۔“ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: ۱۴۱۷)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے (اس دن) مسجد کے دروازوں پر بیٹھ جاتے ہیں، اور جو جمعہ کے لیے آتا ہے اسے لکھتے ہیں، اور جب امام (خطبہ دینے کے لیے) نکلتا ہے تو فرشتے رجسٹر لپیٹ دیتے ہیں“ ، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جمعہ کے لیے سب سے پہلے آنے والا ایک اونٹ کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک گائے کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک بکری کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک بطخ کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک مرغی کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک انڈے کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ نماز جمعہ کے لیے جو جتنی جلدی پہنچے گا اتنا ہی زیادہ اجروثواب کا مستحق ہو گا، اور جتنی تاخیر کرے گا اتنا ہی ثواب میں کمی آتی جائے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that: The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "When Friday comes, the angels sit at the doors of the masjid and record who comes to jumu'ah prayers. Then, when the imam comes out, the angels roll up their scrolls." The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'The one who comes early to jumu'ah prayers is like one who sacrifices a camel, then like one who sacrifices a cow, then like one who sacrifices a sheep, then like one who sacrifices a duck, then like one who sacrifices a chicken, then like one who sacrifices an egg."