Sunan-nasai:
Description Of Wudu'
(Chapter: The Jewelry Of Wudu)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
149.
حضرت ابوحازم سے منقول ہے کہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ کے پیچھے تھا اور وہ نماز کے لیے وضو کر رہے تھے۔ وہ بازو دھو رہے تھے حتیٰ کہ بغلوں تک پہنچ گئے۔ میں نے کہا: اے ابوہریرہ! یہ کیسا وضو ہے؟ آپ فرمانے لگے: اوفروخ کی نسل! (عجمیو!) تم یہاں ہو؟ اگر مجھے علم ہوتا کہ تم یہاں ہو تو میں ہرگز یہ وضو نہ کرتا۔ میں نے اپنے خلیل ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے: ’’مومن کا زیور وہاں تک پہنچے گا جہاں تک وضو کا پانی پہنچے گا۔‘‘
تشریح:
(1) یہاں زیور سے مراد حقیقی زیور ہی ہے، بعض کا قول ہے کہ یہاں زیور سے مراد نور ہے جو قیامت کے دن اس امت کے افراد کو امتیاز کے طور پر عطا کیا جائے گا، یعنی ان کے چہرے اور ہاتھ پاؤں نور سے چمکتے ہوں گے۔ اسی سے ان کی پہچان ہوگی۔ (2) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بازوؤں کو بغلوں تک دھونا ان کا اجتہاد ہے اور انھوں نے اپنے اس اجتہاد کی وجہ بھی ذکر کر دی کیونکہ اگر یہ عمل مسنون ہوتا تو یقیناً ان کی اس خفگی کی کوئی وجہ نہ ہوتی، اس لیے انھوں نے فرمایا: ’’اگر مجھے علم ہوتا کہ تم یہاں ہو تو میں ہرگز یہ وضو نہ کرتا۔‘‘ لہٰذا افضل وضو وہی ہے جو عملاً نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف احادیث میں منقول ہے اور اسی پر اکتفا کرنا مستحب ہے۔ (3) فروخ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام ہے جن کی اکثر نسل عجمی ہے۔ گویا کہ بنی فروخ سے مراد عجمی ہیں۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 /450 :
صحيح من حديث أبي هريرة مصرحا بسماعه من النبي صلى الله عليه وسلم ، و له
عنه طريقان :
الأولى : عن خلف بن خليفة عن أبي مالك الأشجعي عن أبي حازم قال :
" كنت خلف أبي هريرة و هو يتوضأ للصلاة ، فكان يمد يده حتى يبلغ إبطه ،
فقلت له : يا أبا هريرة ما هذا الوضوء ؟ فقال : يا بني فروخ أنتم ها هنا ؟ ! لو
علمت أنكم ها هنا ما توضأت هذا الوضوء ! سمعت خليلي صلى الله عليه وسلم يقول :
" فذكره .
أخرجه مسلم ( 1 / 151 ) و أبو عوانة ( 1 / 244 ) و النسائي ( 1 / 35 )
و البيهقي ( 1 / 56 ) و أحمد ( 2 / 371 ) عنه .
و خلف هذا فيه ضعف من قبل حفظه و كان اختلط ، لكنه قد توبع فرواه أبو عوانة من
طريق عبد الله بن إدريس قال : سمعت أبا مالك الأشجعي به بلفظ :
" قال : رأيته يتوضأ فيبلغ بالماء عضديه ، فقلت : ما هذا ؟ قال : و أنتم حولي
يا بني فروخ ؟ ! سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : الحلية تبلغ مواضع
الطهور " .
و هذا إسناد صحيح لا غبار عليه .
و الطريق الأخرى عن يحيى بن أيوب البجلي عن أبي زرعة قال :
" دخلت على أبي هريرة فتوضأ إلى منكبيه ، و إلى ركبته ، فقلت له : ألا تكتفي
بما فرض الله عليك من هذا ؟ قال : بلى ، و لكني سمعت رسول الله صلى الله عليه
وسلم يقول : مبلغ الحلية مبلغ الوضوء ، فأحببت أن يزيدني في حليتي " .
أخرجه ابن أبي شيبة في " المصنف " ( 1 / 40 ) : حدثنا ابن المبارك عن يحيى به .
و علقه عنه أبو عوانة في " صحيحه " ( 1 / 243 ) .
قلت : و هذا سند جيد ، رجاله كلهم ثقات رجال " الصحيحين " غير يحيى هذا و هو
ثقة اتفاقا إلا رواية عن ابن معين ، و قال الحافظ : " لا بأس " به . و لا يضره
إن شاء الله تعالى أن خالفه غيره من الثقات فأوقفه ، لأن الرفع زيادة ، و هي من
ثقة فهي مقبولة ، لاسيما و يشهد لها الطريق الأولى ، فأخرج البخاري ( 10 / 317
) و ابن أبي شيبة ( 1 / 41 - 42 ) و أحمد ( 2 / 232 ) عن عمارة بن القعقاع عن
أبي زرعة قال :
" دخلت مع أبي هريرة دار مروان فدعا بوضوء فتوضأ ، فلما غسل ذراعيه جاوز
المرفقين ، فلما غسل رجليه جاوز الكعبين إلى الساقين ، فقلت : ما هذا ؟ قال :
هذا مبلغ الحلية " .
و اللفظ لابن أبي شيبة . قال الشيخ إبراهيم الناجي متعقبا رواية مسلم الأولى
و قد أوردها المنذري في " الترغيب " :
" و هذه الرواية تدل على أن آخره ليس بمرفوع أيضا " .
قلت : يعني قوله : " تبلغ الحلية ... " . و قد عرفت الجواب عن هذا الإعلال أنفا
و غالب ظني أن الناجي لم يقف على المتابعة المذكورة لخلف عند أبي عوانة و لا
على هذه الطريق الأخرى الصحيحة أيضا ، و إلا لما قال ذلك .
على أنه قد بدى لي أن هذه الرواية و إن كانت موقوفة ظاهرا ، فهي في الحقيقة
مرفوعة ، لأن قوله : " هذا مبلغ الحلية " فيه إشارة قوية جدا إلى أن المخاطب
يعلم أن هناك حديثا مرفوعا بلفظ " مبلغ الحلية مبلغ الوضوء " كما هو مصرح به في
الطريق الثانية ، فاكتفى الراوي بذلك عن التصريح برفعه إلى النبي صلى الله عليه
وسلم فتأمل .
و جملة القول : أن الحديث مرفوع من الطريقين ، و لا يعله الموقوف لأنه في حكم
المرفوع كما سبق بيانه .
إذا عرفت هذا ، فهل في الحديث ما يدل على استحباب إطالة الغرة و التحجيل ؟
و الذي نراه إذا لم نعتد برأي أبي هريرة رضي الله عنه - أنه لا يدل على ذلك ،
لأن قوله : " مبلغ الوضوء " من الواضح أنه أراد الوضوء الشرعي ، فإذا لم يثبت
في الشرع الإطالة ، لم يجز الزيادة عليه كما لا يخفى .
على أنه إن دل الحديث على ذلك ، فلن يدل على غسل العضد لأنه ليس من الغرة و لا
التحجيل ، و لذلك قال ابن القيم رحمه الله تعالى في " حادي الأرواح إلى بلاد
الأفراح " ( 1 / 315 - 316 ) :
" و قد احتج بهذا الحديث من يرى استحباب غسل العضد و إطالته ، و الصحيح أنه لا
يستحب ، و هو قول أهل المدينة ، و عن أحمد روايتان ، و الحديث لا يدل على
الإطالة فإن الحلية إنما تكون زينة في الساعد و المعصم ، لا في العضد و الكتف "
.
و اعلم أن هناك حديثا آخر يستدل به من يذهب إلى استحباب إطالة الغرة و التحجيل
و هو بلفظ :
" إن أمتي يأتون يوم القيامة غرا محجلين من آثار الوضوء فمن استطاع منكم أن
يطيل غرته فليفعل " .
و هو متفق عليه بين الشيخين ، لكن قوله : " فمن استطاع ... " مدرج من قول أبي
هريرة ليس من حديثه صلى الله عليه وسلم كما شهد بذلك جماعة من الحفاظ كالمنذري
و ابن تيمية و ابن القيم و العسقلاني و غيرهم و قد بينت ذلك بيانا شافيا في
" الأحاديث الضعيفة " فأغنى عن الإعادة ، و لو صحت هذه الجملة لكانت نصا على
استحباب إطالة الغرة و التحجيل لا على إطالة العضد . و الله ولى التوفيق .
حضرت ابوحازم سے منقول ہے کہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ کے پیچھے تھا اور وہ نماز کے لیے وضو کر رہے تھے۔ وہ بازو دھو رہے تھے حتیٰ کہ بغلوں تک پہنچ گئے۔ میں نے کہا: اے ابوہریرہ! یہ کیسا وضو ہے؟ آپ فرمانے لگے: اوفروخ کی نسل! (عجمیو!) تم یہاں ہو؟ اگر مجھے علم ہوتا کہ تم یہاں ہو تو میں ہرگز یہ وضو نہ کرتا۔ میں نے اپنے خلیل ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے: ’’مومن کا زیور وہاں تک پہنچے گا جہاں تک وضو کا پانی پہنچے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) یہاں زیور سے مراد حقیقی زیور ہی ہے، بعض کا قول ہے کہ یہاں زیور سے مراد نور ہے جو قیامت کے دن اس امت کے افراد کو امتیاز کے طور پر عطا کیا جائے گا، یعنی ان کے چہرے اور ہاتھ پاؤں نور سے چمکتے ہوں گے۔ اسی سے ان کی پہچان ہوگی۔ (2) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بازوؤں کو بغلوں تک دھونا ان کا اجتہاد ہے اور انھوں نے اپنے اس اجتہاد کی وجہ بھی ذکر کر دی کیونکہ اگر یہ عمل مسنون ہوتا تو یقیناً ان کی اس خفگی کی کوئی وجہ نہ ہوتی، اس لیے انھوں نے فرمایا: ’’اگر مجھے علم ہوتا کہ تم یہاں ہو تو میں ہرگز یہ وضو نہ کرتا۔‘‘ لہٰذا افضل وضو وہی ہے جو عملاً نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف احادیث میں منقول ہے اور اسی پر اکتفا کرنا مستحب ہے۔ (3) فروخ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام ہے جن کی اکثر نسل عجمی ہے۔ گویا کہ بنی فروخ سے مراد عجمی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوحازم کہتے ہیں کہ میں ابوہریرہ ؓ کے پیچھے تھا، اور وہ نماز کے لیے وضو کر رہے تھے، وہ اپنے دونوں ہاتھ دھو رہے تھے یہاں تک کہ وہ اپنے دونوں بغلوں تک پہنچ جاتے تھے، تو میں نے کہا: ابوہریرہ! یہ کون سا وضو ہے؟ انہوں نے مجھ سے کہا: اے بنی فروخ! تم لوگ یہاں ہو! ۱؎ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم لوگ یہاں ہو تو میں یہ وضو نہیں کرتا ۲؎ ، میں نے اپنے خلیل (گہرے دوست) نبی اکرم ﷺ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ جنت میں ”مومن کا زیور وہاں تک پہنچے گا جہاں تک وضو پہنچے گا۔“ ۳؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : فروخ ابراہیم علیہ السلام کے لڑکے کا نام تھا جو اسماعیل اور اسحاق علیہما السلام کے بعد پیدا ہوئے، ان کی نسل بہت بڑھی، کہا جاتا ہے کہ عجمی انہیں کی اولاد میں سے ہیں، قاضی عیاض کہتے ہیں، فروخ سے ابوہریرہ کی مراد موالی ہیں اور یہ خطاب ابوحازم کی طرف ہے۔ ۲؎ : اس سے معلوم ہوا کہ عوام کے سامنے ایسا نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ اندیشہ ہے کہ وہ اسے فرض سمجھنے لگ جائیں، اس لیے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات کہی کہ اگر میں جانتا کہ تم لوگ یہاں موجود ہو تو اس طرح وضو نہ کرتا۔ ۳؎ : اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے روز مومن کے اعضاء وضو میں زیور پہنائے جائیں گے، تو جو کامل وضو کرے گا اس کے زیور بھی کامل ہوں گے، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن مسلمان کو زیور اس حد تک پہنایا جائے گا جہاں تک وضو میں پانی پہنچتا ہے یعنی ہاتھوں کا زیور کہنیوں تک، پاؤں کا ٹخنوں تک، اور منہ کا کانوں تک ہو گا۔ «واللہ اعلم»
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hazim said: “I was behind Abu Hurairah (RA) when he performed Wudu’ for Salah. He washed his hand up to the armpit, and I said: ‘ Abu Hurairah (RA) h! What is this Wudu’?’ He said to me: ‘Banu Farrukh! You are here! If I had known that you were here I would not have performed Wudu’ like this. I heard my close friend (i.e., the Prophet) (ﷺ) say: “The jewelry of the believer will reach as far as his Wudu reached.” (Sahih)