باب: کون سی چیزیں وضو توڑتی ہیں اور کون سی نہیں۔مذی سے وضو کا بیان
)
Sunan-nasai:
Description Of Wudu'
(Chapter: What Invalidates Wudu’ And What Does Not Invalidate Wudu’ Of Mahdi(Prostatic Flued) )
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
156.
حضرت مقداد بن اسود ؓ سے روایت ہے کہ حضرت علی ؓ نے اس سے کہا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھیں جو اپنی بیوی سے قریب ہوتا ہے تو اس سے مذی نکلتی ہے تو اس پر کیا واجب ہے؟ چونکہ آپ کی بیٹی میرے نکاح میں ہے، اس لیے مجھے یہ پوچھتے ہوئے شرم آتی ہے، چنانچہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی یہ صورت حال پائے تو وہ اپنی شرم گاہ دھولے اور نماز والا وضو کرلے۔‘‘
تشریح:
(1) مذی نجس ہے لیکن اس کے نکلنے سے غسل فرض نہیں ہوتا۔ اگر اس کا نکلنا یقینی ہے اور خارج ہوچکی ہو تو مذکورہ احادیث کی روشنی میں شرم گاہ اور اردگرد کے آلودہ مقام کو دھونا ضروری ہے بلکہ بعض احادیث سے خصیتین کو دھونے کا وجوب بھی ثابت ہوتا ہے۔ دیکھیے: (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: ۲۰۸) اور جس کپڑے کو مذی لگی ہو تو صحیح احادیث کی روشنی میں اس کے دھونے میں تخفیف ہے، یعنی متاثرہ مقام پر پانی کا ایک چلو بھر کر چھینٹے بھی مار لیے جائیں تو طہارت حاصل ہو جاتی ہے جیسا کہ حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کپڑوں پر مذی لگنے کے متعلق پوچھا کہ اس صورت میں طہارت کیسے حاصل ہوگی تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیرے خیال میں جہاں مذی لگی ہو تو تیرے لیے چلو بھر پانی لے کر کپڑوں پر چھینٹے مار لینا کافی ہے۔‘‘ معلوم ہوا کہ کپڑے پر لگی مذی کے ازالے کے لیے کم از کم یہ شرعی رخصت موجود ہے۔ اگر کوئی دھونا چاہے تو اس کی مرضی ہے، بہرحال مذکورہ صورت سے طہارت حاصل ہو جائے گی۔ یہی موقف امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی ہے جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ ہر صورت میں کپڑے کو دھویا ہی جائے۔ دیکھیے: (جامع الترمذي، الطھارۃ، حدیث: ۱۱۵) لیکن درست موقف امام احمد رحمہ اللہ کا ہے اور اس کی حدیث سے تائید بھی ہوتی ہے۔ گویا احادیث میں جہاں دھونے کا حکم ہے، وہاں مراد شرمگاہ ہے اور جہاں چھینٹوں کا ذکر ہے وہاں مراد کپڑے پر چھینٹے مارنا ہے۔ یاد رہے کہ پانی میں ہاتھ ڈبو کر کپڑے پر مارے ہوئے چھینٹے کفایت نہیں کرتے کیونکہ حدیث میں ’’ایک چلو‘‘ کی قید ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) بعض احادیث میں [نضح] کا لفظ ہے اگرچہ اس سے مراد دھونا اور چھینٹے مارنا، دونوں ہوسکتے ہیں لیکن چونکہ بعض روایات میں [رش] کے الفاظ بھی ہیں، اس لیے مراد یہی ہے کہ کپڑوں پر چھینٹے کافی ہیں۔ واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وصححه النووي. وأخرجه ابن خزيمة في
"صحيحه "، وهو في "صحيح البخاري " و "مسلم " و "أبي عوانة"؛ دون قوله:
" فاذا فضخت... " إلخ) .
إسناده: حدثنا قتيبة بن سعيد: ثنا عَبِيدَةُ بن حمَيْد الحَذأء عن الركَيْنَ بن
الربيع عن حصَيْنِ بن قَبِيصةَ عن علي رضي الله عنه.
وهذا إسناد صحيح، رجاله رجال "الصحيح "؛ غير حصين بن قبيصة؛ وهو
ثقة بلا خلاف.
والحديث أخرجه البيهقي (1/169) من طريق المؤلف.
وأحمد (1/109/رقم 868) : حدثنا عبيدة بن حميد التيمي أبو عبد الرحمن:
حدثني ركين ... به.
وأخرجه النسائي (1/41) عن قتيبة وعلي بن حجْرٍ معاً.
وتابعه زائدة عن الركين: أخرجه الطيالسي (رقم 145) : حدثنا زائدة... به،
ومن طريقه: أخرجه البيهقي (1/167) .
وأخرجه الطحاوي (1/28) ، وأحمد (رقم 1028 و 1029) من طرق أخرى
عن زائدة.
وكذا أخرجه النسائي.
وتابعه أيضا سفيان وشريك عن ركين: أخرجه أحمد (رقم 1028 و 1238) ؛
ولفظ شريك:
كنت رجلاً مَذاءً ؛ فاستحييت أن أسأل رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ من أجل ابنته،
فأمرت المقداد، فسأل رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عن الرجل يجد المزي؟ فقال:
" ذلك ماء الفحل، ولكل فحل ماء، فليغسل ذكره وأنثييه، وليتوضأ وضوءه
للصلاة".
فزاد فيه: "وأنثييه "! وهو سيئ الحفظ؛ لكنه قد توبع عليه من طريق أخرى
يأتي بعد هذا بحديث.
وله شاهد من حديث عبد الله بن سعد الأنصاري وهو الأتي (رقم 206) .
والحديث أخرجه البخاري (1/185 و 227 و 302) ، ومسلم (1/169-
175) ، وأبو عوانة (1/272- 273) ، والنسائي (1/36- 37 و 75) ، وابن ماجه
(1/182- 183) ، والطحاوي، والبيهقي (115) ، والترمذي أيضا (1/193) ،
والطيالسي (رقم 144) ، وأحمد (رقم 618 و 662 و 847 و 856 و 890 و 977
و 1026 و 1071 و 1182) ، وابنه عبد الله في "زوائده " (رقم 606 و 811 و 823
و 893) ، وابن حزم في "المحلى" (1/106- 107) من طرق أخرى كثيرة عن
علي... به دون قوله:
" فإذا فضخت... إلخ ".
وفي رواية لأحمد: " فقال: "إذا خذفت فاغتسل من الجنابة، وإذا لم تكن
خاذفاً فلا تغتسل ".
وسنده حسن أو صحيح.
(فائدة) : في حديث الباب عند أحمد زيادة: في الشتاء- بعد قوله: فجعلت
أغتسل-.
وكذلك رواه ابن خزيمة- كما في "الفتح " (1/302) -، وصححه النووي في
"المجموع " (2/143) .
حضرت مقداد بن اسود ؓ سے روایت ہے کہ حضرت علی ؓ نے اس سے کہا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھیں جو اپنی بیوی سے قریب ہوتا ہے تو اس سے مذی نکلتی ہے تو اس پر کیا واجب ہے؟ چونکہ آپ کی بیٹی میرے نکاح میں ہے، اس لیے مجھے یہ پوچھتے ہوئے شرم آتی ہے، چنانچہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی یہ صورت حال پائے تو وہ اپنی شرم گاہ دھولے اور نماز والا وضو کرلے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) مذی نجس ہے لیکن اس کے نکلنے سے غسل فرض نہیں ہوتا۔ اگر اس کا نکلنا یقینی ہے اور خارج ہوچکی ہو تو مذکورہ احادیث کی روشنی میں شرم گاہ اور اردگرد کے آلودہ مقام کو دھونا ضروری ہے بلکہ بعض احادیث سے خصیتین کو دھونے کا وجوب بھی ثابت ہوتا ہے۔ دیکھیے: (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: ۲۰۸) اور جس کپڑے کو مذی لگی ہو تو صحیح احادیث کی روشنی میں اس کے دھونے میں تخفیف ہے، یعنی متاثرہ مقام پر پانی کا ایک چلو بھر کر چھینٹے بھی مار لیے جائیں تو طہارت حاصل ہو جاتی ہے جیسا کہ حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کپڑوں پر مذی لگنے کے متعلق پوچھا کہ اس صورت میں طہارت کیسے حاصل ہوگی تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیرے خیال میں جہاں مذی لگی ہو تو تیرے لیے چلو بھر پانی لے کر کپڑوں پر چھینٹے مار لینا کافی ہے۔‘‘ معلوم ہوا کہ کپڑے پر لگی مذی کے ازالے کے لیے کم از کم یہ شرعی رخصت موجود ہے۔ اگر کوئی دھونا چاہے تو اس کی مرضی ہے، بہرحال مذکورہ صورت سے طہارت حاصل ہو جائے گی۔ یہی موقف امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی ہے جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ ہر صورت میں کپڑے کو دھویا ہی جائے۔ دیکھیے: (جامع الترمذي، الطھارۃ، حدیث: ۱۱۵) لیکن درست موقف امام احمد رحمہ اللہ کا ہے اور اس کی حدیث سے تائید بھی ہوتی ہے۔ گویا احادیث میں جہاں دھونے کا حکم ہے، وہاں مراد شرمگاہ ہے اور جہاں چھینٹوں کا ذکر ہے وہاں مراد کپڑے پر چھینٹے مارنا ہے۔ یاد رہے کہ پانی میں ہاتھ ڈبو کر کپڑے پر مارے ہوئے چھینٹے کفایت نہیں کرتے کیونکہ حدیث میں ’’ایک چلو‘‘ کی قید ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) بعض احادیث میں [نضح] کا لفظ ہے اگرچہ اس سے مراد دھونا اور چھینٹے مارنا، دونوں ہوسکتے ہیں لیکن چونکہ بعض روایات میں [رش] کے الفاظ بھی ہیں، اس لیے مراد یہی ہے کہ کپڑوں پر چھینٹے کافی ہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مقداد بن اسود ؓ سے روایت ہے کہ علی ؓ نے انہیں حکم دیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے اس آدمی کے بارے میں سوال کریں جو اپنی بیوی سے قریب ہو اور اس سے مذی نکل آئے، تو اس پر کیا واجب ہے؟ (وضو یا غسل) کیونکہ میرے عقد نکاح میں آپ ﷺ کی صاحبزادی (فاطمہ ؓ) ہیں، اس لیے میں (خود) آپ ﷺ سے پوچھتے ہوئے شرما رہا ہوں، تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی ایسا پائے تو اپنی شرمگاہ پر پانی چھڑک لے اور نماز کے وضو کی طرح وضو کرے،“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Al-Miqdad bin Al-Aswad that ‘Ali told him to ask the Messenger of Allah (ﷺ) about a man who comes close to his wife and prostatic fluid comes out of him — what should he do? (‘Ali said:) For his daughter is married to me and I feel too shy to ask him. So I asked the Messenger of Allah (ﷺ) about that and he said: “If any one of you experiences that, let him sprinkle water on his private part and perform Wudu’ as for Salah.” (Sahih)