کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل
(
باب: نفل نمازگھر میں پڑھنے کی ترغیب اور اس کی فضیلت
)
Sunan-nasai:
The Book of Qiyam Al-Lail (The Night Prayer) and Voluntary Prayers During the Day
(Chapter: Encouragement to pray in houses and the virtue of doing so)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1598.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے گھروں میں نماز (نفل) پڑھا کرو۔ انھیں قبرستان نہ بنالو۔“
تشریح:
(1) عذر کے سوا فرض نماز مسجد میں باجماعت پڑھنی چاہیے، البتہ نفل نماز گھر اور مسجد دونوں میں پڑھی جا سکتی ہے۔ مسجد فرض نمازوں سے آباد ہوجائے گی۔ گھروں کو نفل نماز ہی سے آباد کیا جاسکتا ہے، لہٰذا نفل نماز گھر میں پڑھنا بہتر اور افضل ہے۔ عورتوں کے لیے فرض نماز بھی گھر ہی میں پڑھنا افضل ہے اگرچہ مسجد میں بھی وہ فرض نماز پڑھ سکتی ہیں۔ اس طرح گھروں کو اللہ کے ذکر سے آباد کیا جاسکتا ہے۔ گھر اور دل وہی آباد اور زندہ ہیں جن میں اللہ کا ذکر ہو ورنہ ویران اورمردہ ہیں۔ اس لحاظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گھروں کو قبرستان سے تشبیہ دی ہے جہاں اللہ کا ذکر نہیں ہوتا اور جہاں نماز پڑھنی قطعاً منع ہے۔ اور اللہ کے ذکر کی اصل اور اعلیٰ صورت نماز ہی ہے۔ (2) اس روایت سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قبرستان میں نماز نہیں پڑھی جاسکتی سوائے نماز جنازہ کے کہ اس میں رکوع اور سجدہ نہیں ہے۔ بعض شارعین نے اس روایت کے یہ معنیٰ بھی کیے ہیں کہ گھروں میں قبریں نہ بناؤ ورنہ قبروں کی وجہ سے گھروں میں نماز نہ پڑھ سکو گے۔ یہ مسئلہ تو صحیح ہے مگر اس معنیٰ میں ذرا تکلف ہے۔ (3) اس روایت کا یہ مطلب نہیں کہ مسجد میں نفل اور سنت پڑھے نہیں جا سکتے بلکہ مطلب یہ ہے کہ گھروں میں بھی نوافل پڑھا کرو۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه. وصححه
الترمذي) .
إسناده: حدثنا أحمد بن محمد بن حنجل: ثنا يحيى عن عبيد الله: أخبرني
نافع عن ابن عمر.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي.
والحديث في "مسند أحمد" (2/16) ... بهذا السند.
وأخرجه البخاري (1/79) ، ومسلم (2/187) ، وابن ماجه (1/415- 416) ،
والبيهقي (2/189) من طرق أخرى عن يحيى بن سعيد القطان.
والترمذي (2/313/451) ، وكذا البخاري (2/53) ، وأحمد (2/122-
123) من طرق أخرى عن عبيد الله بن عمر... به. وقال الترمذي:
" حديث حسن صحيح ".
والبخاري (2/53) ، ومسلم، وأحمد (2/6) من طريق أيوب عن نافع... به.
والحديث سيأتي في "الوتر" بإسناد آخر للمصنف عن يحيى.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے گھروں میں نماز (نفل) پڑھا کرو۔ انھیں قبرستان نہ بنالو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) عذر کے سوا فرض نماز مسجد میں باجماعت پڑھنی چاہیے، البتہ نفل نماز گھر اور مسجد دونوں میں پڑھی جا سکتی ہے۔ مسجد فرض نمازوں سے آباد ہوجائے گی۔ گھروں کو نفل نماز ہی سے آباد کیا جاسکتا ہے، لہٰذا نفل نماز گھر میں پڑھنا بہتر اور افضل ہے۔ عورتوں کے لیے فرض نماز بھی گھر ہی میں پڑھنا افضل ہے اگرچہ مسجد میں بھی وہ فرض نماز پڑھ سکتی ہیں۔ اس طرح گھروں کو اللہ کے ذکر سے آباد کیا جاسکتا ہے۔ گھر اور دل وہی آباد اور زندہ ہیں جن میں اللہ کا ذکر ہو ورنہ ویران اورمردہ ہیں۔ اس لحاظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گھروں کو قبرستان سے تشبیہ دی ہے جہاں اللہ کا ذکر نہیں ہوتا اور جہاں نماز پڑھنی قطعاً منع ہے۔ اور اللہ کے ذکر کی اصل اور اعلیٰ صورت نماز ہی ہے۔ (2) اس روایت سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قبرستان میں نماز نہیں پڑھی جاسکتی سوائے نماز جنازہ کے کہ اس میں رکوع اور سجدہ نہیں ہے۔ بعض شارعین نے اس روایت کے یہ معنیٰ بھی کیے ہیں کہ گھروں میں قبریں نہ بناؤ ورنہ قبروں کی وجہ سے گھروں میں نماز نہ پڑھ سکو گے۔ یہ مسئلہ تو صحیح ہے مگر اس معنیٰ میں ذرا تکلف ہے۔ (3) اس روایت کا یہ مطلب نہیں کہ مسجد میں نفل اور سنت پڑھے نہیں جا سکتے بلکہ مطلب یہ ہے کہ گھروں میں بھی نوافل پڑھا کرو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے گھروں میں نماز پڑھو، انہیں قبرستان نہ بناؤ۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : نماز سے مراد نوافل اور سنتیں ہیں۔ ”انہیں قبرستان نہ بناؤ“ یعنی اس سے معلوم ہوا کہ جن گھروں میں نوافل کی ادائیگی کا اہتمام نہیں ہوتا وہ قبرستان کی طرح ہوتے ہیں، جس طرح قبریں عمل اور عبادت سے خالی ہوتی ہیں اسی طرح ایسے گھر بھی عمل اور عبادت سے محروم ہوتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Nafi' that Abdullah bin Umar said: "Pray in your houses and do not make them like graves."