کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل
(
باب: ماہ رمضان المبارک کی (خصوصی نماز (تراویح)
)
Sunan-nasai:
The Book of Qiyam Al-Lail (The Night Prayer) and Voluntary Prayers During the Day
(Chapter: Qiyam during the month of Ramadan)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1604.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز (تراویح) پڑھی۔ کچھ لوگ بھی آپ کی اقتدا میں نماز پڑھنے لگے، پھر اگلی رات آپ نے (مسجد میں) نماز پڑھی تو لوگ پہلے سے زیادہ ہوگئے، پھر تیسری یا چوتھی رات تو سب لوگ ہی جمع ہوگئے لیکن رسول اللہ ﷺ تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”رات جو تم نے کیا میں دیکھ رہا تھا(یعنی تمھارا اجتماع اور ذوق و شوق) مگر مجھے آنے سے یہ چیز مانع تھی کہ مجھے خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض ہی نہ کردی جائے۔“ اور یہ رمضان المبارک کی بات ہے۔
تشریح:
(1) یہ روایت تفصیلاً پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے فوائد ومسائل حدیث نمبر:۱۶۰۰ (2) مذکورہ روایت میں یہ ہے کہ تیسری یا چوتھی رات آپ تشریف نہ لائے جبکہ ایک صحیح روایت میں صراحت ہے کہ تین راتیں لوگوں نے آپ کی اقتدا میں نماز تراویح پڑھی اور آپ نے انھیں تینوں راتیں آٹھ رکعت اور وتر پڑھائے تھے۔ چوتھی رات آپ تشریف نہ لائے۔ دیکھیے: (مسند ابي یعلی بتحقیق شیختا ارشاد الحق الأثري، برقم:۱۷۹۶، وقال الذھبي: اسنادہ وسط، و میزان الاعتدال:۳؍۲۱۱، وصحیح ابن خزیمه، رقم:۱۰۷۰، وصحیح ابن حبان، رقم:۲۴۵۱ فی مواضع) (3) معلوم ہوا کہ لوگوں کا ذوق شوق اور نفل کام پر اصرار بھی فرضیت کا ایک سبب ہے جس طرح اور بھی بہت سے اسباب ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا امر بھی ہوگیا تو وہ فرض ہوجائے گا ورنہ باوجود مداومت اور اصرار کے نفل ہی رہے گا۔ ان الفاظ کا یہ مطلب نہیں کہ نفل پر مداومت نہیں کرنی چاہیے۔ خصوصاً اب جبکہ فرضیت کا امکان ہی نہیں تو کسی بھی نفل پر مداومت، اصرار اور پابندی میں کوئی حرج نہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه) .
إسناده: حدثنا القعنبي عن مالك عن ابن شهاب عن عروة بن الزبير عن
عائشة زوج النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي.
والحديث في "الموطأ" (1/113/1) .
وعنه: البخاري (1/286 و 499- 500) ، ومسلم (2/177) ، والنسائي
(2/238) ، وأحمد (16/77) كلهم عن مالك... به.
وأخرجه البخاري (1/235) ، ومسلم، وأحمد (16/69 و 222) من طرق
أخرى عن الزهري... به؛ وليس فيه أن ذلك في رمضان.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز (تراویح) پڑھی۔ کچھ لوگ بھی آپ کی اقتدا میں نماز پڑھنے لگے، پھر اگلی رات آپ نے (مسجد میں) نماز پڑھی تو لوگ پہلے سے زیادہ ہوگئے، پھر تیسری یا چوتھی رات تو سب لوگ ہی جمع ہوگئے لیکن رسول اللہ ﷺ تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”رات جو تم نے کیا میں دیکھ رہا تھا(یعنی تمھارا اجتماع اور ذوق و شوق) مگر مجھے آنے سے یہ چیز مانع تھی کہ مجھے خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض ہی نہ کردی جائے۔“ اور یہ رمضان المبارک کی بات ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ روایت تفصیلاً پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے فوائد ومسائل حدیث نمبر:۱۶۰۰ (2) مذکورہ روایت میں یہ ہے کہ تیسری یا چوتھی رات آپ تشریف نہ لائے جبکہ ایک صحیح روایت میں صراحت ہے کہ تین راتیں لوگوں نے آپ کی اقتدا میں نماز تراویح پڑھی اور آپ نے انھیں تینوں راتیں آٹھ رکعت اور وتر پڑھائے تھے۔ چوتھی رات آپ تشریف نہ لائے۔ دیکھیے: (مسند ابي یعلی بتحقیق شیختا ارشاد الحق الأثري، برقم:۱۷۹۶، وقال الذھبي: اسنادہ وسط، و میزان الاعتدال:۳؍۲۱۱، وصحیح ابن خزیمه، رقم:۱۰۷۰، وصحیح ابن حبان، رقم:۲۴۵۱ فی مواضع) (3) معلوم ہوا کہ لوگوں کا ذوق شوق اور نفل کام پر اصرار بھی فرضیت کا ایک سبب ہے جس طرح اور بھی بہت سے اسباب ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا امر بھی ہوگیا تو وہ فرض ہوجائے گا ورنہ باوجود مداومت اور اصرار کے نفل ہی رہے گا۔ ان الفاظ کا یہ مطلب نہیں کہ نفل پر مداومت نہیں کرنی چاہیے۔ خصوصاً اب جبکہ فرضیت کا امکان ہی نہیں تو کسی بھی نفل پر مداومت، اصرار اور پابندی میں کوئی حرج نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی، آپ کی نماز کے ساتھ کچھ اور لوگوں نے بھی نماز پڑھی، پھر آپ نے آنے والی رات میں بھی نماز پڑھی اور لوگ بڑھ گئے تھے، پھر تیسری یا چوتھی رات میں لوگ جمع ہوئے تو رسول اللہ ﷺ ان کی طرف نکلے ہی نہیں، پھر جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”تم نے جو دلچسپی دکھائی اسے میں نے دیکھا، تو تمہاری طرف نکلنے سے مجھے صرف اس چیز نے روک دیا کہ میں ڈرا کہ کہیں وہ تمہارے اوپر فرض نہ کر دی جائے“ ، یہ رمضان کا واقعہ تھا۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد یہ اندیشہ باقی نہیں رہا اس لیے تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنے میں اب کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ مشروع ہے، رہا یہ مسئلہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں راتوں میں تراویح کی کتنی رکعتیں پڑھیں، تو دیگر صحیح روایات سے ثابت ہے کہ آپ نے ان راتوں میں اور بقیہ قیام اللیل میں آٹھ رکعتیں پڑھیں اور وتر کی رکعتوں کو ملا کر اکثر گیارہ اور کبھی تیرہ رکعت تک پڑھنا ثابت ہے، یہی صحابہ سے اور خلفاء راشدین سے منقول ہے، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے بیس رکعتیں پڑھیں لیکن یہ روایت منکر اور ضعیف ہے، لائق استناد نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Aishah that: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) prayed in the masjid one night, and some people followed his prayer. Then he prayed the following night and more people came. Then they gathered on the third or fourth night and the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) did not come out to them. When morning came he said: "I saw what you did, and nothing prevented me from coming out to you but the fact that I feared that this would be made obligatory for you," and that was in Ramadan.