کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل
(
باب: رات کی نماز (تہجد)کی ترغیب
)
Sunan-nasai:
The Book of Qiyam Al-Lail (The Night Prayer) and Voluntary Prayers During the Day
(Chapter: Encouragement to pray Qiyam Al-Lail)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1611.
حضرت علی ابن ابی طالب ؓ سے منقول ہے کہ ایک دفعہ نبی ﷺ رات کے وقت ان کے اور سیدہ فاطمہ ؓ کے پاس آئے اور فرمایا: ”تم رات کی نماز نہیں پڑھتے؟“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہماری روحیں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ چاہے گا ہمیں جگا دے گا۔ جب میں نے یہ بات کہی تو رسول اللہ ﷺ واپس تشریف لے گئے۔ میں نے سنا، آپ اپنی ران مبارک پر (افسوس و ناراضی سے) ہاتھ مارتے جارہے تھے اور کہہ رہے تھے: (وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا) ”انسان سب سے بڑھ کر کٹ حجت ہے۔“
تشریح:
(1) ”ہماری روحیں“ ان الفاظ کی بنیاد اس تصور پر ہے کہ نیند میں روح کامل طور پر انسان سے نکل کر اللہ تعالیٰ کے قبضے میں چلی جاتی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: ﴿اللَّهُ يَتَوَفَّى الأنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا﴾(الزمر:۳۹:۴۲) لہٰذا روح کی واپسی ہی پر جاگ آئے گی۔ (2) حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما بھی نوجوان تھے۔ اس عمر میں رات کو نماز تہجد کے لیے جاگنا بہت مشکل ہوتا ہے، اس لیے کبھی ان سے سستی ہوجاتی ہوگی۔ معلوم ہوتا ہے یہ ان کی شادی کے ابتدائی دور کی بات ہے۔ (3) ”کٹ حجت ہے“ کیونکہ اختیاری مسئلے میں تقدیر کو پیش کرنا کٹ حجتی ہے۔ تقدیر کا حوالہ وہاں دیا جائے گا جہاں اختیار نہ ہو، مثلاً: زندگی اور موت، صحت اور بیماری وغیرہ۔ نماز پڑھنا تو اختیاری مسئلہ ہے۔ اس میں تقدیر کو عذر کے طور پر پیش کرنا صحیح نہیں کیونکہ ان معاملات میں امرونہی مدار ہے، نہ کہ تقدیر۔
حضرت علی ابن ابی طالب ؓ سے منقول ہے کہ ایک دفعہ نبی ﷺ رات کے وقت ان کے اور سیدہ فاطمہ ؓ کے پاس آئے اور فرمایا: ”تم رات کی نماز نہیں پڑھتے؟“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہماری روحیں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ چاہے گا ہمیں جگا دے گا۔ جب میں نے یہ بات کہی تو رسول اللہ ﷺ واپس تشریف لے گئے۔ میں نے سنا، آپ اپنی ران مبارک پر (افسوس و ناراضی سے) ہاتھ مارتے جارہے تھے اور کہہ رہے تھے: (وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا) ”انسان سب سے بڑھ کر کٹ حجت ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”ہماری روحیں“ ان الفاظ کی بنیاد اس تصور پر ہے کہ نیند میں روح کامل طور پر انسان سے نکل کر اللہ تعالیٰ کے قبضے میں چلی جاتی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: ﴿اللَّهُ يَتَوَفَّى الأنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا﴾(الزمر:۳۹:۴۲) لہٰذا روح کی واپسی ہی پر جاگ آئے گی۔ (2) حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما بھی نوجوان تھے۔ اس عمر میں رات کو نماز تہجد کے لیے جاگنا بہت مشکل ہوتا ہے، اس لیے کبھی ان سے سستی ہوجاتی ہوگی۔ معلوم ہوتا ہے یہ ان کی شادی کے ابتدائی دور کی بات ہے۔ (3) ”کٹ حجت ہے“ کیونکہ اختیاری مسئلے میں تقدیر کو پیش کرنا کٹ حجتی ہے۔ تقدیر کا حوالہ وہاں دیا جائے گا جہاں اختیار نہ ہو، مثلاً: زندگی اور موت، صحت اور بیماری وغیرہ۔ نماز پڑھنا تو اختیاری مسئلہ ہے۔ اس میں تقدیر کو عذر کے طور پر پیش کرنا صحیح نہیں کیونکہ ان معاملات میں امرونہی مدار ہے، نہ کہ تقدیر۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں اور فاطمہ کو (دروازہ کھٹکھٹا کر) بیدار کیا، اور فرمایا: ”کیا تم نماز نہیں پڑھو گے؟“ تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہماری جانیں تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں، جب وہ انہیں اٹھانا چاہے گا اٹھا دے گا، جب میں نے آپ سے یہ کہا تو آپ ﷺ پلٹ پڑے، پھر میں نے آپ کو سنا، آپ پیٹھ پھیر کر جا رہے تھے اور اپنی ران پر (ہاتھ) مار کر فرما رہے تھے: «وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا» ”انسان بہت حجتی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Ali bin Abi Talib that: The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) came to him and Fatimah at night and said: "Won't you pray?" I said: "O Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم), our souls are in the hand of Allah and if He wants to make us get up, He will make us get up." The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) went away when I said that to him. Then as he was leaving I heard him striking his thigh and saying: But, man is ever more quarrelsome than anything.