Sunan-nasai:
Description Of Wudu'
(Chapter: Not Performing Wudu’ For That )
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
165.
حرت طلق بن علی ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: ہم وفد کی صورت میں اپنے علاقے سے نکلے حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے، چنانچہ ہم نے آپ کی بیعت کی اور آپ کے ساتھ نماز پڑھی۔ نماز ختم ہونے کے بعد ایک بدوی سا آدمی آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! اس آدمی کے بارے میں کیا حکم ہے جو نماز میں اپنے عضو تناسل کو چھو بیٹھتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’وہ بھی تیرے جسم کا ایک ٹکڑا ہی تو ہے۔‘‘
تشریح:
(1) روایت کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ شرم گاہ چھونے سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ احناف نے اسی روایت کو دلیل بنا کر مس ذکر کو نواقض میں شمار نہیں کیا مگر یہ روایت بہت پہلے کی ہے کیونکہ حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ آئے تو مسجد نبوی تعمیر ہو رہی تھی۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے گارا بنانے کی خدمت بھی لی تھی۔ گویا یہ روایت ہجرت کے پہلے سال کی ہے اور بسرہ کی روایت بہت بعد کی ہے کیونکہ بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ والے سال ۸ ہجری کو اسلام قبول کیا تھا، نیز حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ غزوُۂ خیبر کے سال ۷ ہجری کو اسلام لائے ہیں، وہ بھی شرم گاہ چھونے سے وضو ٹوٹنے کا ذکر کرتے ہیں۔ بنابریں دلائل کے اعتبار سے یہی موقف راجح ہے کہ اگر کپڑے کے بغیر شرم گاہ کو چھویا جائے تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ حضرت ابوہریرہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی روایت میں اس بات کی صراحت موجود ہے۔ دیکھیے: (مسند أحمد: ۳۳۳/۲) علامہ صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت بسرہ والی روایت کی تائید دوسری احادیث سے بھی ہوتی ہے جنھیں سترہ (۱۷) صحابہ بیان کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک راوی طلق بن علی بھی ہیں جن سے شرم گاہ چھونے سے وضو نہ ٹوٹنے کی روایت منقول ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۳۶۲/۳ - ۳۷۲، تحت حدیث: ۱۶۴) (2) مرد اور عورت اس حکم میں برابر ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جو مرد اور عورت اپنی شرم گاہ کو ہاتھ لگائے، اسے چاہیے کہ وضو کرے۔‘‘ (مسند أحمد: ۳۳۳/۲) (3) اس مسئلے میں اگلی اور پچھلی شرم گاہ کا ایک ہی حکم ہے۔ (4) اپنی شرم گاہ کی طرح دوسرے کی شرم کو ہاتھ لگانے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ (5) عورتیں گھروں میں بچوں کو استنجا وغیرہ کراتی ہیں تو اس کے متعلق یہی موقف راجح ہے کہ اسے بھی ناقض وضو شمار کیا جائے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (المجموع: ۳۰/۲، والمغني: ۲۴۴/۱)
حرت طلق بن علی ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: ہم وفد کی صورت میں اپنے علاقے سے نکلے حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے، چنانچہ ہم نے آپ کی بیعت کی اور آپ کے ساتھ نماز پڑھی۔ نماز ختم ہونے کے بعد ایک بدوی سا آدمی آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! اس آدمی کے بارے میں کیا حکم ہے جو نماز میں اپنے عضو تناسل کو چھو بیٹھتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’وہ بھی تیرے جسم کا ایک ٹکڑا ہی تو ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) روایت کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ شرم گاہ چھونے سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ احناف نے اسی روایت کو دلیل بنا کر مس ذکر کو نواقض میں شمار نہیں کیا مگر یہ روایت بہت پہلے کی ہے کیونکہ حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ آئے تو مسجد نبوی تعمیر ہو رہی تھی۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے گارا بنانے کی خدمت بھی لی تھی۔ گویا یہ روایت ہجرت کے پہلے سال کی ہے اور بسرہ کی روایت بہت بعد کی ہے کیونکہ بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ والے سال ۸ ہجری کو اسلام قبول کیا تھا، نیز حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ غزوُۂ خیبر کے سال ۷ ہجری کو اسلام لائے ہیں، وہ بھی شرم گاہ چھونے سے وضو ٹوٹنے کا ذکر کرتے ہیں۔ بنابریں دلائل کے اعتبار سے یہی موقف راجح ہے کہ اگر کپڑے کے بغیر شرم گاہ کو چھویا جائے تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ حضرت ابوہریرہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی روایت میں اس بات کی صراحت موجود ہے۔ دیکھیے: (مسند أحمد: ۳۳۳/۲) علامہ صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت بسرہ والی روایت کی تائید دوسری احادیث سے بھی ہوتی ہے جنھیں سترہ (۱۷) صحابہ بیان کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک راوی طلق بن علی بھی ہیں جن سے شرم گاہ چھونے سے وضو نہ ٹوٹنے کی روایت منقول ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۳۶۲/۳ - ۳۷۲، تحت حدیث: ۱۶۴) (2) مرد اور عورت اس حکم میں برابر ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جو مرد اور عورت اپنی شرم گاہ کو ہاتھ لگائے، اسے چاہیے کہ وضو کرے۔‘‘ (مسند أحمد: ۳۳۳/۲) (3) اس مسئلے میں اگلی اور پچھلی شرم گاہ کا ایک ہی حکم ہے۔ (4) اپنی شرم گاہ کی طرح دوسرے کی شرم کو ہاتھ لگانے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ (5) عورتیں گھروں میں بچوں کو استنجا وغیرہ کراتی ہیں تو اس کے متعلق یہی موقف راجح ہے کہ اسے بھی ناقض وضو شمار کیا جائے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (المجموع: ۳۰/۲، والمغني: ۲۴۴/۱)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
طلق بن علی ؓ کہتے ہیں کہ ہم ایک وفد کی شکل میں نکلے یہاں تک کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور ہم نے آپ سے بیعت کی اور آپ کے ساتھ نماز ادا کی، جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو ایک شخص جو دیہاتی لگ رہا تھا آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اس آدمی کے متعلق کیا فرماتے ہیں جو نماز میں اپنا عضو تناسل چھو لے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ تمہارے جسم کا ایک ٹکڑا یا حصہ ہی تو ہے۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : بسرۃ بنت صفوان رضی اللہ عنہا اور طلق بن علی (رضی اللہ عنہم) دونوں کی روایتیں بظاہر متعارض ہیں لیکن بسرۃ رضی اللہ عنہا کی روایت کو ترجیح حاصل ہے، اس لیے کہ وہ اثبت اور اصح ہے اور طلق بن علی رضی اللہ عنہم کی روایت منسوخ ہے کیونکہ یہ پہلے کی ہے اور بسرۃ رضی اللہ عنہا کی روایت بعد کی ہے جیسا کہ ابن حبان اور حازمی نے اس کی تصریح کی ہے، دونوں کے اندر اس طرح بھی تطبیق دی جاتی ہے کہ بسرہ رضی اللہ عنہا کی حدیث بغیر کسی پردہ اور آڑ کے چھونے سے متعلق ہے، اور طلق رضی اللہ عنہم کی حدیث کپڑے وغیرہ کے اوپر سے چھونے سے متعلق ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Talq bin ‘Ali said: “We went out as a delegation and when we arrived with the Messenger of Allah (ﷺ) he accepted our oath of allegiance and we prayed with him. When he had finished the prayer, a man who looked like a Bedouin came to him and said: ‘Messenger of Allah (ﷺ) , what do you think about a man Who touched his penis during theHe said: ‘It is just a part of you,’ or ‘a piece of you.” (Sahih)