کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل
(
باب: صبح کی اذان کے بعدوتر پڑھنا
)
Sunan-nasai:
The Book of Qiyam Al-Lail (The Night Prayer) and Voluntary Prayers During the Day
(Chapter: Witr after the adhan)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1685.
حضرت محمد بن منتشر سے مروی ہے کہ میں حضرت عمروبن شرحبیل کی مسجد میں تھا، نماز کی تکبیر ہوگئی (مگر وہ نہ آئے۔) لوگ ان کا انتظار کرنے لگے، پھر وہ آئے تو انھوں نے کہا: میں وتر پڑھ رہا تھا، نیز انھوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے پوچھا گیا: کیا صبح کی اذان کے بعد وتر پڑھے جاسکتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: ہاں، بلکہ اقامت کے بعد بھی، پھر انھوں نے نبی ﷺ کا واقعہ بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز فجر سوتے میں رہ گئی تھی حتیٰ کہ سورج طلوع ہوگیا تو آپ نے اس وقت نماز پڑھی۔
تشریح:
(1) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ ہے کہ فوت شدہ نماز وقت کے بعد بھی پڑھی جائے گی۔ اسی طرح وتر رہ جائیں تو وہ بھی پڑھے جائیں گے، وقت کوئی بھی ہو۔ یہی بات درست ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر احادیث سے بھی، جو وتر سے متعلق ہیں، اس کی تائید ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنے وتر سے سویا رہ گیا (اور نہ پڑھ سکا) یا اسے بھول گیا تو جب بھی یاد آئے (یا جاگ آئے) پڑھ لے۔“(سنن ابی داود، الوتر، حدیث: ۱۴۳۱) اس سے وتر کے وجوب اور فرضیت پر استدلال نہیں ہوسکے گا کیونکہ جیسے فرائض و واجبات کی ادائیگی ہوتی ہے ایسے ہی نوافل اور ہر مؤکد عمل کی بھی ہوسکتی ہے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی سنتوں کی قضا عصر کے بعد ادا کی۔ صبح کی سنتیں سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھیں۔ ظاہر ہے ظہر اور فجر کی سنتیں واجب نہیں مؤکد ہی ہیں۔ اسی طرح وتر باوجود واجب نہ ہونے کے اس کی قضا دی جاسکتی ہے۔ (2) بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ جس کے وتر رہ جائیں تووہ سورج نکلنے کے بعد اس کی قضا جفت کی شکل میں دے، یعنی ایک وتر کی جگہ دو رکعت، تین وتر کی جگہ چار رکعات پڑھے لیکن ہمارے خیال میں ایسا اس شخص کے لیے ضروری ہوگا جو قیام اللیل (نمازتہجد) کا عادی ہو، عام شخص کے لیے وتروں کی قضا، وتر ہی کی شکل میں مناسب معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
حضرت محمد بن منتشر سے مروی ہے کہ میں حضرت عمروبن شرحبیل کی مسجد میں تھا، نماز کی تکبیر ہوگئی (مگر وہ نہ آئے۔) لوگ ان کا انتظار کرنے لگے، پھر وہ آئے تو انھوں نے کہا: میں وتر پڑھ رہا تھا، نیز انھوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے پوچھا گیا: کیا صبح کی اذان کے بعد وتر پڑھے جاسکتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: ہاں، بلکہ اقامت کے بعد بھی، پھر انھوں نے نبی ﷺ کا واقعہ بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز فجر سوتے میں رہ گئی تھی حتیٰ کہ سورج طلوع ہوگیا تو آپ نے اس وقت نماز پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ ہے کہ فوت شدہ نماز وقت کے بعد بھی پڑھی جائے گی۔ اسی طرح وتر رہ جائیں تو وہ بھی پڑھے جائیں گے، وقت کوئی بھی ہو۔ یہی بات درست ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر احادیث سے بھی، جو وتر سے متعلق ہیں، اس کی تائید ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنے وتر سے سویا رہ گیا (اور نہ پڑھ سکا) یا اسے بھول گیا تو جب بھی یاد آئے (یا جاگ آئے) پڑھ لے۔“(سنن ابی داود، الوتر، حدیث: ۱۴۳۱) اس سے وتر کے وجوب اور فرضیت پر استدلال نہیں ہوسکے گا کیونکہ جیسے فرائض و واجبات کی ادائیگی ہوتی ہے ایسے ہی نوافل اور ہر مؤکد عمل کی بھی ہوسکتی ہے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی سنتوں کی قضا عصر کے بعد ادا کی۔ صبح کی سنتیں سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھیں۔ ظاہر ہے ظہر اور فجر کی سنتیں واجب نہیں مؤکد ہی ہیں۔ اسی طرح وتر باوجود واجب نہ ہونے کے اس کی قضا دی جاسکتی ہے۔ (2) بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ جس کے وتر رہ جائیں تووہ سورج نکلنے کے بعد اس کی قضا جفت کی شکل میں دے، یعنی ایک وتر کی جگہ دو رکعت، تین وتر کی جگہ چار رکعات پڑھے لیکن ہمارے خیال میں ایسا اس شخص کے لیے ضروری ہوگا جو قیام اللیل (نمازتہجد) کا عادی ہو، عام شخص کے لیے وتروں کی قضا، وتر ہی کی شکل میں مناسب معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
محمد بن منتشر کہتے ہیں کہ وہ عمرو بن شرحبیل کی مسجد میں تھے، کہ اتنے میں اقامت ہو گئی، تو لوگ ان کا انتظار کرنے لگے، وہ آئے اور کہا: میں وتر پڑھ رہا تھا، اور کہا: عبداللہ بن مسعود ؓ سے پوچھا گیا: کیا اذان کے بعد وتر ہے، تو کہا: ہاں، اور اقامت کے بعد بھی ہے، اور انہوں نے بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ نماز سے سوئے رہ گئے یہاں تک کہ سورج نکل آیا، پھر آپ نے (اٹھ کر) نماز پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibrahim bin Muhammad Al-Muntashir, from his father, that: He was in the masjid of 'Amr bin Shurahbil and the iqamah for prayer was said, and they were waiting. He came and said: "I was praying witr." Abdullah was asked: "Is there any witr after the adhan?" He said: "Yes, and after the Iqamah." And he narrated that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) once slept and missed the prayer until the sun had risen, then he prayed.