کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل
(
باب: وتر میں دعائے قنوت
)
Sunan-nasai:
The Book of Qiyam Al-Lail (The Night Prayer) and Voluntary Prayers During the Day
(Chapter: Supplicating during witr)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1747.
حضرت علی ابن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اپنی وتر نماز کے آخر میں یہ الفاظ پڑھتے تھے:[اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ۔۔۔أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ] ”اے اللہ! میں تیرے غصے سے بچنے کے لیے تیری رضامندی کی پناہ چاہتا ہوں اور تیری سزا سے بچنے کے لیے تیری معافی اور عافیت کی پناہ چاہتا ہوں اور میں تجھ سے ڈرتے ہوئے تیری ہی پناہ چاہتا ہوں۔ میں تیری مکمل تعریف نہیں کرسکتا۔ تو اسی طرح ہے جس طرح تو نے خود اپنی تعریف کی ہے۔“
تشریح:
(۱) مذکورہ حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ اس دعا کا مقام کیا ہے؟ تشہد کے آخر میں یا سلام کے بعد۔ مؤخر الذکر مفہوم زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ایک روایت میں آپ سے یہ الفاظ بستر پر لیٹنے وقت پڑھنے بھی منقول ہیں۔ پیچھے حدیث نمبر ۱۱۰۱ میں یہ الفاظ تہجد کے سجدے کے دوران میں بھی آپ سے پڑھنے منقول ہیں۔ امام نسائی رحمہ اللہ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس دعا کو قنوت وتر میں سمجھتے ہیں۔ [اخروترہ] کے یہ معنیٰ بھی ممکن ہیں۔ لیکن ابن قیم رحمہ اللہ کی تحقیق میں فی اخر وترہ سے مراد سلام کے بعد ان کلمات کا پڑھنا ہے۔ ان کے بقول سنن نسائی کی ایک روایت میں نماز سے فراغت کی تصریح ملتی ہے۔ دیکھیے: (زادالمیعاد:۱؍۳۳۶) (۲) قنوت وتر سارا سال ہی جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس موضوع سے متعلقہ عام روایات میں دعائے وتر کا ذکر نہیں ملتا۔ اگر آپ سے اس دعا کے پڑھنے کا بدستور ثبوت ملتا ہوتا تو یقیناً منقول بھی ہوتا، اس سے پتا چلتا ہے کہ دعائے وتر کبھی رہ جائے یا اسے چھوڑ بھی دیا جائے تو جائز ہے سجدۂ سہو کی ضرورت نہیں کیونکہ اس دعا کی حیثیت وجوب کی نہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قنوت وتر کا ثبوت کبھی کبھار ملتا ہے۔ تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (اصل صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم: ۳؍۹۶۸)
حضرت علی ابن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اپنی وتر نماز کے آخر میں یہ الفاظ پڑھتے تھے:[اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ۔۔۔أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ] ”اے اللہ! میں تیرے غصے سے بچنے کے لیے تیری رضامندی کی پناہ چاہتا ہوں اور تیری سزا سے بچنے کے لیے تیری معافی اور عافیت کی پناہ چاہتا ہوں اور میں تجھ سے ڈرتے ہوئے تیری ہی پناہ چاہتا ہوں۔ میں تیری مکمل تعریف نہیں کرسکتا۔ تو اسی طرح ہے جس طرح تو نے خود اپنی تعریف کی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(۱) مذکورہ حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ اس دعا کا مقام کیا ہے؟ تشہد کے آخر میں یا سلام کے بعد۔ مؤخر الذکر مفہوم زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ایک روایت میں آپ سے یہ الفاظ بستر پر لیٹنے وقت پڑھنے بھی منقول ہیں۔ پیچھے حدیث نمبر ۱۱۰۱ میں یہ الفاظ تہجد کے سجدے کے دوران میں بھی آپ سے پڑھنے منقول ہیں۔ امام نسائی رحمہ اللہ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس دعا کو قنوت وتر میں سمجھتے ہیں۔ [اخروترہ] کے یہ معنیٰ بھی ممکن ہیں۔ لیکن ابن قیم رحمہ اللہ کی تحقیق میں فی اخر وترہ سے مراد سلام کے بعد ان کلمات کا پڑھنا ہے۔ ان کے بقول سنن نسائی کی ایک روایت میں نماز سے فراغت کی تصریح ملتی ہے۔ دیکھیے: (زادالمیعاد:۱؍۳۳۶) (۲) قنوت وتر سارا سال ہی جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس موضوع سے متعلقہ عام روایات میں دعائے وتر کا ذکر نہیں ملتا۔ اگر آپ سے اس دعا کے پڑھنے کا بدستور ثبوت ملتا ہوتا تو یقیناً منقول بھی ہوتا، اس سے پتا چلتا ہے کہ دعائے وتر کبھی رہ جائے یا اسے چھوڑ بھی دیا جائے تو جائز ہے سجدۂ سہو کی ضرورت نہیں کیونکہ اس دعا کی حیثیت وجوب کی نہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قنوت وتر کا ثبوت کبھی کبھار ملتا ہے۔ تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (اصل صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم: ۳؍۹۶۸)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی وتر کے آخر میں یہ کلمات کہتے تھے: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ» ”اے اللہ! میں تیری خوشی کی تیرے غصے سے پناہ مانگتا ہوں، تیرے بچاؤ کی تیری پکڑ سے پناہ مانگتا ہوں، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں تجھ سے، میں تیری تعریف نہیں کر سکتا تو ویسے ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف کی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ali bin Abi Talib that: The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) used to say at the end of witr: Allahumma inni audhu bi ridaka min sakhatika wa bi mu'afatika min uqubatika, wa audhu bika minka la uhsi thana'an 'alayka, anta kama athwart ala nafsik ( O Allah, I seek refuge in Your pleasure from Your wrath and in Your forgiveness from Your punishment. And I seek refuge in You from You; I cannot praise You enough; You are as You have praised Yourself.)."