Sunan-nasai:
Mention The Fitrah (The Natural Inclination Of Man)
(Chapter: Allowing One To Not To Do That)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
18.
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے، انھوں نے کہا: میں اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا کہ آپ ایک قوم کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کے پاس پہنچے تو آپ نے کھڑے کھڑے پیشاب کیا۔ (آپ کے پیشاب کرنے سے پہلے) میں ایک طرف ہٹا تو آپ نے مجھے بلایا۔ میں آپ کی ایڑیوں کے پاس (دوسری طرف منہ کرکے) کھڑا رہا حتیٰ کہ آپ فارغ ہو گئے۔ پھر آپ نے وضو فرمایا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔
تشریح:
(1) یہ روایت مختصر ہے جس سے بعض غلط فہمیوں کا امکان ہے، اس لیے ترجمے میں قوسین کے ذریعے سے وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ صحیح صورت واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوڑے کے ڈھیر پر پیشاب کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حسب معمول آپ سے دور ہونے لگے، لیکن چونکہ آپ کو صرف پیشاب کی حاجت تھی جس میں آواز یا بدبو کا امکان نہ تھا (خصوصاً قیام کی حالت میں) اس لیے آپ نے انھیں کہا: ’’اے حذیفہ! مجھے اوٹ کرو۔‘‘ وہ آپ سے قریب پچھلی طرف دوسری جانب منہ کرکے کھڑے ہوگئے۔ (ایڑیوں کے قریب سے مراد مطلق قرب ہے نہ کہ حقیقتاً ایڑیوں سے ایڑیاں ملا کر۔) اس طرح آپ کی طرف نظر کا امکان نہ رہا اور پورا پردہ ہوگیا۔
(2) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عام عادت بیٹھ کر پیشاب کرنے ہی کی تھی مگر مذکورہ واقعہ میں آپ نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا۔ اس کی مختلف عقلی و نقلی توجیہات کی گئی ہیں، مثلاً: ڈھیر کی گندگی سے بچنے کے لیے کیونکہ ڈھیر پر بیٹھنے کی صورت میں کپڑوں یا جسم کو گندگی لگ سکتی تھی یا اس لیے کہ پیشاب کی دھار دور گرے۔ بیٹھنے کی صورت میں پیشاب قریب گرتا اور واپس پاؤں کی طرف آتا، نیز چھینٹے بھی پڑتے یا گھٹنے میں تکلیف کی وجہ سے بیٹھنا مشکل تھا جیسا کہ بیہقی کی ایک ضعیف روایت میں ہے۔ (السنن الکبریٰ، للبیھقی: ۱۰۱/۱) یا کمر درد کے علاج کے لیے جیسا کہ اطباء کا خیال تھا۔ بہرحال مذکورہ توجیہات کی روشنی میں عمومی رائے یہی ہے کہ آپ کے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی ان میں سے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور تھی، لیکن تحقیق یہ ہے کہ ان مذکورہ وجوہ میں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی ایک وجہ بھی بسند صحیح ثابت نہیں، اس لیے اس کے مقابلے میں ایک دوسری رائے بھی ہے جسے امام نووی رحمہ اللہ وغیرہ نے اختیار کیا اور وہ یہ ہے کہ آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب صرف بیان جواز کے لیے کیا ہے جبکہ آپ کی عام عادت بیٹھ کر ہی پیشاب کرنے کی تھی۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، اطھارۃ، حدیث: ۲۷۴، مع شرح النووي) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں،[وإلا ظھر أنه فعل ذلک لبیان الجواز……] ’’زیادہ واضح بات یہ ہے کہ آپ کا یہ عمل صرف بیان جواز کے لیے تھا……‘‘ (فتح الباري: ۴۳۰/۱، طبع دارالسلام) نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بارے میں منقول توجیہات کو گویا قابل حجت نہیں سمجھا، بہرحال اگر کوئی شخص ضرورت کے پیش نظر یا کبھی کبھار بلا ضرورت ہی جواز کو پیش نظر رکھتے ہوئے کھڑے ہوکر سنت پر عمل کی خاطر پیشاب کر لیتا ہے تو ان شاء اللہ جائز ہوگا۔ واللہ أعلم۔ (۳) باب کا مقصد یہ ہے کہ اگر آواز یا بدبو کا خدشہ نہ ہو تو پیشاب کے لیے صرف پردہ کافی ہے، دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 345 :
أخرجه النسائي ( 1 / 11 ) و الترمذي ( 1 / 17 ) و ابن ماجه ( 1 / 130 )
و الطيالسي ( 1 / 45 من ترتيبه ) كلهم عن شريك بن المقدام عن شريح عن أبيه عن
عائشة قالت ... فذكره .
و قال الترمذي :
" حديث عائشة أحسن شيء في الباب و أصح " .
قلت ... و هذا ليس معناه تحسين الحديث بله تصحيحه كما هو معروف في علم المصطلح
و كأن ذلك لضعف شريك القاضي ، و لكنه لم ينفرد به . بل تابعه سفيان الثوري عن
المقدام بن شريح به .
أخرجه أبو عوانة في " صحيحه " ( 1 / 198 ) و الحاكم ( 1 / 181 ) و البيهقي
( 1 / 101 ) و أحمد ( 1 / 136 ، 192 ، 213 ) من طرق عن سفيان به .
و قال الحاكم :
" صحيح على شرط الشيخين " ، و وافقه الذهبي ، و فيه نظر ، فإن المقدام ابن شريح
و أبوه لم يحتج بهما البخاري فهو على شرط مسلم وحده .
و قال الذهبي في " المهذب " ( 1 / 22 / 2 ) : " سنده صحيح " .
فتبين مما سبق أن الحديث صحيح بهذه المتابعة ، و قد خفيت على الترمذي فلم يصحح
الحديث ، و ليس ذلك غريبا ، و لكن الغريب أن يخفى ذلك على غير واحد من الحفاظ
المتأخرين ، أمثال العراقي و السيوطي و غيرهما ، فأعلا الحديث بشريك ، و ردا
على الحاكم تصحيحه إياه متوهمين أنه عنده من طريقه ، و ليس كذلك كما عرفت ،
و كنت اغتررت بكلامهم هذا لما وضعت التعليق على " مشكاة المصابيح " ، و كان
تعليقا سريعا اقتضته ظروف خاصة ، لم تساعدنا على استقصاء طرق الحديث كما هي
عادتنا ، فقلت في التعليق على هذا الحديث من " المشكاة " ( 365 ) .
" و إسناده ضعيف فيه شريك ، و هو ابن عبد الله القاضي و هو سيء الحفظ " .
و الآن أجزم بصحة الحديث للمتابعة المذكورة . و نسأل الله تعالى أن لا يؤاخذنا
بتقصيرنا .
قلت آنفا : اغتررنا بكلام العراقي و السيوطي ، و ذلك أن الأخير قال في " حاشيته
على النسائي " ( 1 / 12 ) .
" قال الشيخ ولي الدين ( هو العراقي ) : هذا الحديث فيه لين ، لأن فيه شريكا
القاضي و هو متكلم فيه بسوء الحفظ ، و ما قال الترمذي : إنه أصح شيء في هذا
الباب لا يدل على صحته ، و لذلك قال ابن القطان : إنه لا يقال فيه : صحيح ،
و تساهل الحاكم في التصحيح معروف ، و كيف يكون على شرط الشيخين مع أن البخاري
لم يخرج لشريك بالكلية ، و مسلم خرج له استشهادا ، لا احتجاجا " .
نقله السيوطي و أقره ! ثم تتابع العلماء على تقليدهما كالسندي في حاشيته على
النسائي ، ثم الشيخ عبد الله الرحماني المباركفوري في " مرقاة المفاتيح شرح
مشكاة المصابيح " ( 1 / 253 ) ، و غيرهم ، و لم أجد حتى الآن من نبه على أوهام
هؤلاء العلماء ، و لا على هذه المتابعة ، إلا أن الحافظ رحمه الله كأنه أشار
إليها في " الفتح " ( 1 / 382 ) حين ذكر الحديث : و قال :
" رواه أبو عوانة في " صحيحه " و " الحاكم " .
فاقتصر في العزو عليهما لأنه ليس في طريقهما شريك ، بخلاف أصحاب " السنن "
و لذلك لم يعزه إليهم ، و الحمد لله الذي هدانا لهذا و ما كنا لنهتدي لولا أن
هدانا الله .
و اعلم أن قول عائشة إنما هو باعتبار علمها ، و إلا فقد ثبت في " الصحيحين "
و غيرهما من حديث حذيفة رضي الله عنه قال :
" أتى النبي صلى الله عليه وسلم سباطة قوم فبال قائما " .
و لذلك فالصواب جواز البول قاعدا و قائما ، و المهم أمن الرشاش ، فبأيهما حصل
وجب .
و أما النهي عن البول قائما فلم يصح فيه حديث ، مثل حديث " لا تبل قائما " و قد
تكلمت عليه في " الأحاديث الضعيفة " رقم ( 938 ) .
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے، انھوں نے کہا: میں اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا کہ آپ ایک قوم کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کے پاس پہنچے تو آپ نے کھڑے کھڑے پیشاب کیا۔ (آپ کے پیشاب کرنے سے پہلے) میں ایک طرف ہٹا تو آپ نے مجھے بلایا۔ میں آپ کی ایڑیوں کے پاس (دوسری طرف منہ کرکے) کھڑا رہا حتیٰ کہ آپ فارغ ہو گئے۔ پھر آپ نے وضو فرمایا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ روایت مختصر ہے جس سے بعض غلط فہمیوں کا امکان ہے، اس لیے ترجمے میں قوسین کے ذریعے سے وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ صحیح صورت واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوڑے کے ڈھیر پر پیشاب کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حسب معمول آپ سے دور ہونے لگے، لیکن چونکہ آپ کو صرف پیشاب کی حاجت تھی جس میں آواز یا بدبو کا امکان نہ تھا (خصوصاً قیام کی حالت میں) اس لیے آپ نے انھیں کہا: ’’اے حذیفہ! مجھے اوٹ کرو۔‘‘ وہ آپ سے قریب پچھلی طرف دوسری جانب منہ کرکے کھڑے ہوگئے۔ (ایڑیوں کے قریب سے مراد مطلق قرب ہے نہ کہ حقیقتاً ایڑیوں سے ایڑیاں ملا کر۔) اس طرح آپ کی طرف نظر کا امکان نہ رہا اور پورا پردہ ہوگیا۔
(2) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عام عادت بیٹھ کر پیشاب کرنے ہی کی تھی مگر مذکورہ واقعہ میں آپ نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا۔ اس کی مختلف عقلی و نقلی توجیہات کی گئی ہیں، مثلاً: ڈھیر کی گندگی سے بچنے کے لیے کیونکہ ڈھیر پر بیٹھنے کی صورت میں کپڑوں یا جسم کو گندگی لگ سکتی تھی یا اس لیے کہ پیشاب کی دھار دور گرے۔ بیٹھنے کی صورت میں پیشاب قریب گرتا اور واپس پاؤں کی طرف آتا، نیز چھینٹے بھی پڑتے یا گھٹنے میں تکلیف کی وجہ سے بیٹھنا مشکل تھا جیسا کہ بیہقی کی ایک ضعیف روایت میں ہے۔ (السنن الکبریٰ، للبیھقی: ۱۰۱/۱) یا کمر درد کے علاج کے لیے جیسا کہ اطباء کا خیال تھا۔ بہرحال مذکورہ توجیہات کی روشنی میں عمومی رائے یہی ہے کہ آپ کے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی ان میں سے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور تھی، لیکن تحقیق یہ ہے کہ ان مذکورہ وجوہ میں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی ایک وجہ بھی بسند صحیح ثابت نہیں، اس لیے اس کے مقابلے میں ایک دوسری رائے بھی ہے جسے امام نووی رحمہ اللہ وغیرہ نے اختیار کیا اور وہ یہ ہے کہ آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب صرف بیان جواز کے لیے کیا ہے جبکہ آپ کی عام عادت بیٹھ کر ہی پیشاب کرنے کی تھی۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، اطھارۃ، حدیث: ۲۷۴، مع شرح النووي) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں،[وإلا ظھر أنه فعل ذلک لبیان الجواز……] ’’زیادہ واضح بات یہ ہے کہ آپ کا یہ عمل صرف بیان جواز کے لیے تھا……‘‘ (فتح الباري: ۴۳۰/۱، طبع دارالسلام) نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بارے میں منقول توجیہات کو گویا قابل حجت نہیں سمجھا، بہرحال اگر کوئی شخص ضرورت کے پیش نظر یا کبھی کبھار بلا ضرورت ہی جواز کو پیش نظر رکھتے ہوئے کھڑے ہوکر سنت پر عمل کی خاطر پیشاب کر لیتا ہے تو ان شاء اللہ جائز ہوگا۔ واللہ أعلم۔ (۳) باب کا مقصد یہ ہے کہ اگر آواز یا بدبو کا خدشہ نہ ہو تو پیشاب کے لیے صرف پردہ کافی ہے، دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا کہ آپ لوگوں کے ایک کوڑے خانہ پر پہنچے تو آپ ﷺ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ۱؎ ، میں آپ سے دور ہٹ گیا ، تو آپ نے مجھے بلایا ۲؎ ، ( تو جا کر ) میں آپ کی دونوں ایڑیوں کے پاس ( کھڑا ) ہو گیا یہاں تک کہ آپ ( پیشاب سے ) فارغ ہو گئے، پھر آپ نے وضو کیا اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی علماء نے متعدد توجیہیں بیان کیں ہیں، سب سے مناسب توجیہ یہ ہے کہ اسے بیان جواز پر محمول کیا جائے، حافظ ابن حجر نے اسی کو راجح قرار دیا ہے ۔
۲؎ : تاکہ میں آڑ بن جاؤں دوسرے لوگ آپ کو اس حالت میں نہ دیکھ سکیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Hudhaifah said: “I was walking with the Messenger of Allah (ﷺ) and he came to some people’s garbage dump and urinated while standing up. I turned to go away, but he called me back (to conceal him), and I was just behind him. Then when he had finished, he performed Wudu and wiped over his Khuffs.” (Sahih)