کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟
(
باب: منی خارج ہونے سے غسل
)
Sunan-nasai:
Mention When Ghusal (A Purifying Bath) Is Obligatory And When It Is Not
(Chapter: Ghusl From (The Emission Of) Semen)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
193.
حضرت علی ؓ سے منقول ہے کہ مجھے مذی بہت زیادہ آتی تھی تو مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم مذی دیکھو تو اپنے عضو (وغیرہ) کو دھو لو اور نماز والا وضو کرو لیکن جب تم زور سے منی نکالو تو غسل کرو۔‘‘
تشریح:
(1) مذی کا مسئلہ تو پیچھے (حدیث ۱۵۲، ۱۵۳ کے تحت) گزر چکا ہے۔ ’’منی گاڑھا، لیس دار سفید پانی ہوتا ہے جو زور سے اچھل کر نکلتا ہے کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں فضخ ’’اچھل کر نکلنے‘‘ کی قید موجود ہے، اس صورت میں شہوت بھی یقینی امر ہے، اس کے نکلنے سے شہوت ختم ہو جاتی ہے۔ (2) حدیث: [الماء من الماء]’’خروج منی سے غسل ہے‘‘ اگرچہ مطلق ہے اسے مقید حدیث پر محمول کیا جائے گا۔ (3) منی کا نکلنا، خواہ جماع سے ہو یا احتلام سے یا ویسے شہوت سے، غسل کو واجب کر دیتا ہے، البتہ اگر کسی کو بغیر شہوت کے کسی بیماری کی بنا پر یا قضائے حاجت کے وقت زور لگانے سے منی نکل آئے تو جمہور اہل علم کے نزدیک غسل واجب نہیں ہوتا۔ لیکن احتلام میں جس طرح بھی منی خارج ہو جائے، شہوت سے یا گرمی سے، خواب یاد ہو یا نہ ہو، زور سے نکلے یا آرام سے، ہر حال میں غسل واجب ہو جاتا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک منی بیماری سے یا جیسے بھی نکلے، غسل واجب ہو جاتا ہے لیکن حدیث کے ظاہر الفاظ کے مقابلے میں یہ موقف محل نظر ہے۔ واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرطهما، وكذلك صححه الحاكم ووافقه
الذهبي) .
إسناده: حدثنا هَناد بن السَرِي وإبراهيم بن أبي معاوية عن أبي معاوية. (ح)
وثنا عثمان بن أبي شيبة: حدثني شريك وجرير وابن إدريس عن الأعمش عن
شقيق قال: قال عبد الله.
قال أبو داود: قال إبراهيم بن أبي معاوية فيه: عن الأعمش عن شقيق عن
مسروق- أو حدثه عنه- قال: قال عبد الله. وقال هناد: عن شقيق- أو حدثه
عنه-[قال: قال عبد الله ].
ومقصود المؤلف من ذلك بيان اختلاف وقع فيه على أبي معاوية:
فابنه إبراهيم يرويه عنه عن الأعمش عن شقيق عن مسروق عن عبد الله؛
فأدخل بين شقيق وعبد الله: مسروقاً.
وخالفه هناد؛ فأسقطه من بينهما موافقاً في ذلك ابن أبي شيبة.
ثم اتفقا- أعني: إبراهيم وهناداً- في الشك في التحديث بدل العنعنة لكنهما
اختلفا في محله:
فإبراهيم جعله في رواية شقيق عن مسروق؛ أي: هل قال شقيق: حدثني
مسروق، أم قال: عن مسروق؟!
وهناد جعله في رواية الأعمش عن شقيق.
هذا هو الظاهر مما ذكره المصنف رحمه الله؛ وقد فهم صاحب "العون " خلاف ما
بينا من تعيين مكان الشك!
وهو خطأً واضح لاحاجة لبيانه؛ فنكتفي بالإشارة إليه، فمن شاء التحقق؛
فليراجعه بنفسه، ثم ليقابله بما ذكرنا؛ يتبين له صواب ما ذهبنا إليه.
وقد تابع هناداً: محمد بن حماد: ثنا أبو معاوية عن الأعمش عن شقيق- أو
حدثه عنه-.
أخرجه البيهقي (1/139) من طريق الحاكم، وهو في "المستدرك " (1/139)
والصواب رواية ابن أبي شيبة؛ لأنه لا اضطراب فيها، ولأن أبا معاوية قد
وافقه عليها: في رواية أحمد بن مَنِيع وأحمد بن عبد الجبار كلاهما عن أبي
معاوية عن الأعمش عن شقيق قال: قال عبد الله.
أخرجه الحاكم (1/139 و 171) .
وقد تابعه على الصواب: سفيان بن عيينة عن الأعمش... به.
أخرجه الحاكم، وعنه البيهقي.
فالحديث صحيح على شرط الشيخين؛ وكذلك صححه الحاكم، ووافقه الذهبي.
والحديث أخرجه البيهقي من طريق المصنف.
وأخرجه الحاكم من طريق موسى بن إسحاق الأنصاري: ثنا أبو بكر بن أبي
شيبة: ثنا شريك وجرير عن الأعمش... به.
ثم أخرجه، هو وابن ماجه (1/323) من طريقين آخربن عن عبد الله بن
إدريس... به؛ ولفظ ابن ماجه: قال: أمرنا أن لا نكف شعراً ولا ثوباً، ولا نتوضأ
من موطئ.
ورواه الترمذي (1/267) تعليقاً؛ بلفظ: قال:
كنا مع رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا نتوضأ من المَوْطَأ.
قلت: وهذا لفظ ابن عيينة عند الحاكم والبيهقي.
(تنبيه) : بعض أسانيد هذا الحديث عند الحاكم: من طريق عبد الله بن أحمد
ابن حنبل، وليس الحديث في "مسند أبيه " ولا في "زوائده " عليه!
حضرت علی ؓ سے منقول ہے کہ مجھے مذی بہت زیادہ آتی تھی تو مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم مذی دیکھو تو اپنے عضو (وغیرہ) کو دھو لو اور نماز والا وضو کرو لیکن جب تم زور سے منی نکالو تو غسل کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) مذی کا مسئلہ تو پیچھے (حدیث ۱۵۲، ۱۵۳ کے تحت) گزر چکا ہے۔ ’’منی گاڑھا، لیس دار سفید پانی ہوتا ہے جو زور سے اچھل کر نکلتا ہے کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں فضخ ’’اچھل کر نکلنے‘‘ کی قید موجود ہے، اس صورت میں شہوت بھی یقینی امر ہے، اس کے نکلنے سے شہوت ختم ہو جاتی ہے۔ (2) حدیث: [الماء من الماء]’’خروج منی سے غسل ہے‘‘ اگرچہ مطلق ہے اسے مقید حدیث پر محمول کیا جائے گا۔ (3) منی کا نکلنا، خواہ جماع سے ہو یا احتلام سے یا ویسے شہوت سے، غسل کو واجب کر دیتا ہے، البتہ اگر کسی کو بغیر شہوت کے کسی بیماری کی بنا پر یا قضائے حاجت کے وقت زور لگانے سے منی نکل آئے تو جمہور اہل علم کے نزدیک غسل واجب نہیں ہوتا۔ لیکن احتلام میں جس طرح بھی منی خارج ہو جائے، شہوت سے یا گرمی سے، خواب یاد ہو یا نہ ہو، زور سے نکلے یا آرام سے، ہر حال میں غسل واجب ہو جاتا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک منی بیماری سے یا جیسے بھی نکلے، غسل واجب ہو جاتا ہے لیکن حدیث کے ظاہر الفاظ کے مقابلے میں یہ موقف محل نظر ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علی ؓ کہتے ہیں کہ میں ایک ایسا شخص تھا جسے کثرت سے مذی آتی تھی، تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”جب مذی دیکھو تو اپنا ذکر دھو لو، اور نماز کے وضو کی طرح وضو کر لو، اور جب پانی (منی) کودتا ہوا نکلے تو غسل کرو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that ‘Ali said: “I was one who had a lot of prostatic discharge, and the Messenger of Allah (ﷺ) said to me: ‘If you see Madhi (prostatic fluid) then wash your penis and perform Wudu’ like that for Salah, but if you ejaculate semen, then perform Ghusl.” (Sahih)