تشریح:
(1) پہلے پہل آپ کا معمول یہی تھا کہ مقروض میت جو ادائیگی کے لیے مال نہ چھوڑ کر فوت ہوتا، اس کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے، البتہ کوئی شخص سچے دل سے قرض ادا کرنا چاہتا تھا مگر ادا نہ کرسکا تو ایسا مجبور شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک گناہ گار نہیں۔ بعد میں بیت المال میں وسعت ہوگئی تو آپ جنازہ پڑھ لیتے تھے اور ادائیگی بیت المال سے فرما دیتے تھے۔ جس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے: [فمَنْ تُوُفِّيَ مِنَ المؤمنينَ فَتركَ دَيْنًا فعلَيَّ قَضاؤُهُ، ومَنْ تركَ مالًا فهوَ لِوَرَثَتِه] (صحیح البخاري، الکفالة، حدیث: ۲۳۹۸، و صحیح مسلم، الفرائض، حدیث: ۱۶۱۹) بہرحال ہر گناہ گار میت کا جنازہ ضرور ہونا چاہیے۔
(2) میت کے ذمے اگر قرض وغیرہ ہوتو کوئی شخص اسے اپنے ذمے لے سکتا ہے، اور اس کی ذمہ داری قبول کی جا سکتی ہے، یہ ناجائز نہیں جیسے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔