Sunan-nasai:
The Book of Funerals
(Chapter: The Squeezing of The Grave)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2055.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے (حضرت سعد بن معاذ ؓ کے دفن کے وقت) فرمایا: ”یہ شخص جس کے لیے عرش جھوم گیا، اس (کی روح) کے لیے آسمان کے تمام دروازے کھول دیے گئے اور اس کے جنازے پر ستر ہزار فرشتے حاضر ہوئے، وہ بھی بھینچ دیا گیا مگر پھر اسے چھوڑ دیا گیا۔“
تشریح:
(1) ”جھوم گیا“ یعنی ان کے استقبال کی خوشی میں۔ یہ معنیٰ ان کی عظمت و شان پر دلالت کرتے ہیں۔ (2) ”بھینچا گیا“ کیونکہ ہر انسان میں کوئی نہ کوئی کمی ہوتی ہے (علاوہ انبیاء علیہم السلام کے کہ وہ معصوم ہوتے ہیں۔) اس بھینچنے سے وہ اس کمی کے اثر سے نجات پا لیتا ہے بشرطیکہ وہ مومن ہو۔ مومن کو صرف ایک دفعہ بھینچا جاتا ہے، پھر چھوڑ دیا جاتا ہے مگر کچھ عجب نہیں کہ کافر پر یہ عذاب بار بار ہوتا ہو۔ حدیث میں آتا ہے کہ قبر ہر ایک کو بھینچتی ہے، اگر اس سے کوئی محفوظ رہتا تو یقیناً حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ محفوظ رہتے۔ (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: ۳۲۷/۴۰، رقم: ۲۴۲۸۳، والصحیحة: ۲۶۸/۴، رقم: ۱۶۹۵) (3) اس کی توجیہ میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ”قبر“ انسان کے لیے ماں کی طرح ہے کیونکہ وہ اسی مٹی سے بنایا گیا تھا۔ عرصۂ دراز کے بعد ملنے والے بیٹے کو ماں خوب زور سے اپنے جسم کے ساتھ بھینچتی ہے، چاہے اسے اس سے تکلیف ہی ہو۔ قبر کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، البتہ نیک شخص کو وہ محبت سے بھینچتی ہے اور برے شخص کو غصے اور ناراضی سے۔ نیک کے لیے اس میں سرور ہے اور برے کے لیے عذاب۔ واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 4 / 268 :
رواه البغوي في " حديث علي بن الجعد " ( 8 / 73 / 2 ) و الطحاوي في " مشكل
الآثار " ( 1 / 107 ) عن شعبة عن سعد بن إبراهيم قال : سمعت نافعا يحدث عن
امرأة ابن عمر عن عائشة مرفوعا به . و أخرجه أحمد ( 6 / 55 و 98 ) من هذا
الوجه إلا أنه قال : " إنسان " مكان " امرأة ابن عمر " . و رجال إسناده ثقات
كلهم غير امرأة ابن عمر فلم أعرفها ، و الظن بها حسن . على أن سفيان الثوري قد
أسقطها من الإسناد ، و جعل الحديث من مسند زوجها ابن عمر . أخرجه الطحاوي من
طريق أبي حذيفة حدثنا سفيان عن سعد عن نافع عن ابن عمر مرفوعا به نحوه . و هذا
إسناد رجاله ثقات أيضا رجال البخاري إلا أنه أخرج لأبي حذيفة متابعة ، و اسمه
موسى بن مسعود النهدي ، و الثوري أحفظ من شعبة لولا أن الراوي عنه فيه ضعف فقال
الحافظ : " صدوق سيء الحفظ " . و لما أخرجه أبو نعيم في " الحلية " ( 3 / 174 )
من طريقه ، أشار إلى تضعيفه و ترجيح الأول بقوله : " كذا رواه أبو حذيفة عن
الثوري عن سعد ، و رواه غندر و غيره عن شعبة عن سعد عن نافع عن إنسان ( الأصل
سنان ! ) عن عائشة رضي الله عنها مثله " . لكن للحديث أصل عن ابن عمر ، فقال
ابن سعد في " الطبقات " ( 3 / 430 ) : أخبرنا إسماعيل بن مسعود قال : أخبرنا
عبد الله بن إدريس قال : أخبرنا عبيد الله بن عمر عن نافع عن ابن عمر قال : قال
رسول الله صلى الله عليه وسلم : فذكره نحوه .
قلت : و هذا إسناد صحيح رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين غير إسماعيل بن مسعود
و هو أبو مسعود الجحدري البصري و هو ثقة . و تابعه عمرو بن محمد العنقزي :
حدثنا ابن إدريس به . أخرجه النسائي ( 1 / 289 ) و سنده صحيح أيضا . فهذه
متابعة قوية من عبيد الله بن عمر لرواية أبي حذيفة عن الثوري عن سعد بن إبراهيم
. و الله أعلم . و له طريق آخر ، برواية عطاء بن السائب عن مجاهد عن ابن عمر
مرفوعا بلفظ : " ضم سعد في القبر ضمة فدعوت الله أن يكشف عنه " . أخرجه الحاكم
( 3 / 206 ) و صححه ، و وافقه الذهبي ! و عطاء كان اختلط ، و قد زاد فيه الدعاء
. و خالفه ابن لهيعة في إسناده فقال : عن عقيل أنه سمع سعد بن إبراهيم يخبر عن
عائشة بنت سعد أنها حدثته عن عائشة أم المؤمنين مرفوعا به نحوه . أخرجه
الطبراني في " الأوسط " ( 1 / 82 / 1 ) و قال : " تفرد به ابن لهيعة " .
قلت : و هو سيء الحفظ . و له شاهد من حديث ابن عباس مرفوعا به نحوه . أخرجه
الطبراني ( 1 / 81 / 2 ) و في " الكبير " ( 10827 و 12975 ) من طريق زياد مولى
ابن عباس عنه . و قال الهيثمي في " المجمع " ( 3 / 46 - 47 ) : رواه الطبراني
في " الكبير " و " الأوسط " و رجاله موثقون " .
قلت : هو عند الطبراني من طريقين :
الأولى : عن حسان بن غالب حدثنا ابن لهيعة عن أبي النضر المديني عن زياد مولى
ابن عباس ( ! ) عن ابن عباس . و حسان بن غالب متروك متهم بالوضع ، كما تراه في
" اللسان " و خفي أمره على ابن يونس فوثقه ، و لعله مستند الهيثمي في قوله :
" و رجاله موثقون " ، فإن فيه إشعار بأن التوثيق لين في بعضهم على الأقل ،
و نحو ذلك يقال في ابن لهيعة ، و إن كان خيرا بكثير من حسان ، حتى أن الهيثمي
يحسن حديثه أحيانا ، و هو حري بذلك عند المتابعة ، و هي متحققة هنا كما في
الشواهد المتقدمة و المتابعة الآتية و هي :
الطريق الأخرى : قال : حدثنا عمر بن عبد العزيز بن مقلاص حدثنا أبي حدثنا ابن
وهب أخبرني عمرو بن الحارث أن أبا النضر حدثه عن زياد مولى ابن عياش عن ابن
عباس . و هذا إسناد رجاله ثقات رجال الشيخين غير زياد مولى ابن عياش فمن رجال
مسلم وحده إلا أن عمر بن عبد العزيز و أباه لم أجد لهما ترجمة . ثم إنه قد
داخلني شك كبير في كون هذا الحديث من مسند ابن عباس ، فإنهم لم يذكروا لزياد
هذا رواية عنه بل ذكر الحافظ المزي في " التهذيب " أنه روى عن مولاه عبد الله
ابن عياش بن أبي ربيعة المخزومي ، و قد روى الحسن بن سفيان عن زياد هذا عن عبد
الله بن عياش حديثا في قصة موت عثمان ابن مظعون كما في ترجمة ابن عياش من
" الإصابة " ، و قد تحرف فيه " مولى ابن عياش " إلى " مولى ابن عباس " ، و كذلك
وقع في الطريق الأولى عند الطبراني و لعله خطأ مطبعي ، و كذلك تحرف " ابن عياش
" إلى " ابن عباس " في الطريقين ، فصار الحديث من مسنده ، و إنما هو من مسند
ابن عياش فيما أظن . و الله أعلم . و جملة القول أن الحديث بمجموع طرقه
و شواهده صحيح بلا ريب ، فنسأل الله تعالى أن يهون علينا ضغطة القبر إنه نعم
المجيب .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2056
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2054
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2057
تمہید کتاب
اسلام ایک عالمگیر مذہب اورمکمل ضابطہ حیات ہے جس طرح اس نے زندگی گزارنے کے طور طريق سمجھائے ہیں اسی طرح مرنے کے بعد کے نام بھی سکھلائے ہیں۔ ہر شعبہ زندگی میں مکمل رہنمائی اور ہر مسئلے کا جامع اورا حسن حل اس کی عالمگیریت کی بین دلیل ہے۔ یہ کتاب آدمی کے فوت ہونے کے بعد پیش آنے والے مسائل پر مشتمل ہے۔ اس میں امام نسائی نے جنازے کے مسائل تفصیل سے بیان کے ہیں۔ تفہیم مسائل اورسہولت استفادہ کے لئے چند بنیادی احکام اجمالا ابتدامیں پیش کیے جارہے ہیں۔عيادت: بیمار پرسی ایک مسلمان کا دوسرے پرحق ہے۔ یہ بہت فضیلت والاعمل ہے۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایامسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی تیمارداری کے لیے جاتا ہے تو وہ واپس لوٹے تک جنت کے باغوں میں رہتاہے۔ (صحیح مسلم البر والصلة حديث:2568)حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جو مسلمان دوسرے مسلمان کی دن کے اول حصہ میں عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کے لیے شام تک رحمت و مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور جو مسلمان دن کے آخری حصے میں عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کے لیے صبح تک رحمت اور مغفرت کی دعا کرتے ہیں، نیز اس کے لیے بہشت میں باغ ہے۔(جامع الترمذي، الجنائز، حدیث969)مذکورہ احادیث سے اور اس موضوع کی دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مریض کی عیادت کرنی چاہیے کیونکہ یہ باعث اجر ہے نیز اس سے مریض کو تسلی ملتی ہے۔ عیادت کے موقع پر مسنون دعائیں پڑھنی چاہئیں۔ نبی اکرم ﷺسے تیمار داری کے موقع پر دعائیں منقول ہیں ان میں سے کوئی بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ چند دعائیں پیش خدمت ہیں:رسول اللہﷺ نے فرمایا:”جو اپنے مسلمان بھائی کی تیمارداری کے لیے جاتا ہے اور اس کے سرکے پاس بیٹھ کر سات مرتبہ یہ کلمات پڑھتا ہے تو وہ شفایاب ہو جاتا ہے الا یہ کہ اس کی موت کا وقت آچکا ہو۔ ( أسأل الله العظيم رب العرش العظيم أن يشفيک) "میں بزرگ و برتر الله عرش عظیم کے رب سے سوال کرتا ہوں کہ وہ تجھے شفاسے نوازے۔(سنن أبي داود، الجنائز حدیث:3106)حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا: رسول اللہﷺ جب کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تو فرماتے(لابأس طهور إن شاء الله تعالی) کوئی حرج نہیں(غم نہ کر) اگر الله تعالیٰ نے چاہا تو(یہی بیماری تجھے گناہوں سے) پاک کرنے والی ہے۔‘‘(صحيح البخاري المرض حديث:5656)حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ مریض( کے جسم )پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے تھے(أَذْهِبِ البَاسَ رَبَّ النَّاسِ، اشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِي، لاَ شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لاَ يُغَادِرُسَقَمًا)اے انسانوں کے رب!بیماری کو دور کر اور شفادے۔ تو ہی شفادینے والا ہے۔ تیری شفا کے سوا کوئی شفا نہیں ایسی شفا(دے) جوکسی بیماری کو نہیں چھوڑتی۔(صحیح البخاري الطب حديث:5750و صحیح مسلم السلام حديث:2191)موت کی آرزو کرنا: موت کی آرزو کرنا درست نہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:”موت کی تمنا نہ کرو۔ اگرتم نیک ہو تو شاید زیادہ نیکی کر سکو اور اگر بدکار ہوتو توبہ کر کے اللہ کو راضی کرسکو۔(صحيح البخاري التمني حديث:7235) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”موت کی آمد سے پہلے موت کی تمنا کرونہ موت کی دعا کرو کیونکہ جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کی نیکی کرنے کی امید ختم ہو جاتی ہے اور مومن کی لمبی عمراسے نیکیوں ہی میں آگے بڑھاتی ہے۔ (صحیح مسلم الذكر والدعاء حديث:2682)حضرت انس سے مروی ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا: تم میں سے کسی کو اس مصیبت و تکلیف کی . وجہ سے جو اس پرنازل ہوئی ہو موت کی تمنا ہرگز ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ اور اگر اس کی تمنا ضروری ہو توپھر اس طرح کہنا چاہیے( اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرالي، و توفني إذا كانت الوفاة خيرالی)اے اللہ مجھے زندہ رکھ جب تک میری زندگی میرے لیے خیر باعث ہو اور جب میرے لیے وفات بہتر ہو تو مجھے وفات دے دے۔(صحيح البخاري المرض حديث:5671وصحيح مسلم الذكر والدعاء حديث:2680)خودکشی: خودکشی حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جوشخص اپنے آپ کو گلاگھونٹ کر مارتا ہے وہ جہنم میں اپنا گلا گھونٹتا ر ہےگا اور جوشخص نیز چبھو کر اپنی جان دیتا ہے وہ ہم میں اپنے آپ کونیزہ مارتا رہے گا۔‘‘(صحيح البخاري الجنائز، حدیث:1365) یعنی اسے اسی صورت میں عذاب ہوتا رہے گا۔ حضرت جندب سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایک آدمی زخمی تھا اس نے خوشی کرلی الله عزوجل نے فرمایا: میرے بندے نے اپنی جان خودلی ‘ اس لیے میں نے اس پر جنت حرام کردی۔(صحيح البخاري الجنائزحديث:1365)نبی اکرم ﷺایسے شخص کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے۔ (صحیح مسلم الجنائز، حديث:978)تلقین: قریب الموت شخص کولا إله إلا الله کی تلقین کرنی چاہیے یعنی اسے مناسب طریقے سے کلمہ پڑھنے کی ترغیب دی جائے یا اس کے پاس بیٹھ کر بلند آواز سے کلمہ پڑھا جائے تا کہ سن کر وہ بھی پڑھ لے۔ غرض جو طریقہ بھی اپنایاجائے مقصود حاصل ہونا چاہیے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”ان لوگوں کو جو مرنے کے قریب ہوں لا إله إلا الله کی تلقین کرو۔ (صحیح مسلم الجنائز، حديث:916) نیز نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے: (من كان آخر كلامه لا إله إلا الله دخل الجنة) جس شخص کا آخری کلام لا إله إلا الله ہووہ جنت میں داخل ہوگا۔(سنن أبي داود، الجنائزحدیث:3116)غسل دینے کا طریقہ : فوت ہونے کے بعد سب سے پہلا مرحلہ غسل کا ہوتا ہے غسل دینے والا نیت کرے اور بسم اللہ پڑھلے۔ کفن کے ساتھ دوستانہ نما لفافے بنائے جاتے ہیں ان میں سے ایک کو اپنے بائیں ہاتھ پر چڑھائے اور میت کو سر کی جانب سے تھوڑا سا اوپر اٹھا کر اس کے پیٹ پر(ناف سے نیچے کی طرف) دبا کر ہاتھ پھیرے تا کہ فضلہ وغیرہ خارج ہوتا ہوتو ہو جائے بعد میں کفن کی تلویث کا سبب نہ بنےپھر اسے استنجا کرایا جائے بعدازاں اس دستانے کواتاردے دوسرادستانہ باقی بدن کے لیے استعمال کرے‘ پھر اسے غسل دینا شروع کرے اور پہلے اسے وضوکرائے سرکامسح اور پاؤں رہنے دیے جائیں۔ کلی اور ناک میں پانی چڑھانا چونکہ ممکن نہیں ہوتا‘ اس لیے روئی وغیرہ سے حسب امکان ہونٹ دانت اور ناک پانی لگا کر صاف کر لیے جائیں‘یہ کلی اور استنشاق ہی تصور ہوگا۔ اس کے بعد پورے جسم کو ایسے پانی سے دھویا جائے جس میں بیری کے پتے ملے ہوئےہوں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اس کا سر دھویا جائےپھر ڈاڑھی پھر پورا دایاں پہلو‘ اس کے بعد پورا بایاں پہلو دھویا جائےپھر دائیں پہلو کو اٹھا کر پیچھے سے دھویا جائے اور پھر اسی طرح بائیں طرف سے اٹھا کر۔ غرض میت کو الٹا کرنے کی ضرورت نہیں۔ بعد میں پاؤں دھو لیے جائیں۔ آخری بار پانی بہاتے ہوئے اس میں کافور بھی شامل کرلیا جائے جو کہ ایک معروف خوشبو ہے۔ علمائے کرام اس کا فائدہ یہ بتاتے ہیں کہ اس سے جسم سخت ہو جاتا ہے اور کیڑے مکوڑسے بھاگ جاتے ہیں۔ اگر میت کے جسم پر میل کچیل زیادہ ہوتو اسے زیادہ غسل دیا جاسکتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺنے ان خواتین سے فرمایا تھا جو آپ کی صاجزادی کو غسل دے رہی تھیں کہ اسے تین بار یا پانچ بار یاسات بارغسل دو اور اگر ضرورت محسوس کروتو اس سے زیادہ بھی دے سکتی ہو۔ دیکھیے :(صحيح البخاري: الجنائز،حديث:1259) غسل کے بعد میت کے جسم سے پانی صاف کر دیا جائے اور اسے کفن پہنا دیا جائے۔ یہ غسل کا مسنون طریقہ ہے۔ جمہور کاموقف بھی کیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (المغني2/318،320وکتاب المجموع شرح المهذب:2/130۔132)تکفین: کفن تین کپڑوں میں دینا مسنون ہے۔ حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺکوکوسحولیہ بستی کے ساختہ سفید رنگ کے تین ایسے کپڑوں میں کفن دیا گیا جو سوتی تھے اور ان میں قمیص اورپگڑی نہیں تھی۔ دیکھیے: (صحيح البخاري الجنائز، حدیث:1264 ، وصحيح مسلم الجنائزحديث:941)تین یکساں چادریں میت کے نیچے بچھا کر انہیں سادہ انداز میں لپٹ لیاجائے۔آج کل ہمارے ہاں جوطریقہ رائج ہے اس میں اوپر والی چادر کوسروالی جگہ سے چیرکر کو اس کے اندر سے گزار کرباہر نکال دیتے ہیں اور چادر کاباقی حصہ سینے پر ڈال دیتے ہیں پھردائیں جانب موڑ کر میت پرڈال لیتے ہیں اور پھر بائیں جانب کو ‘اور دوسری چادر کو لپیٹ لیتے ہیں اورتیسری کو۔ بعد میں سرکی طرف کنارے پر ایک بندلگا لیتے ہیں۔ اسی طرح ایک بند پاؤں والی طرف اور ایک بندسینے پر لگا لیتے ہیں۔ یہ یہی درست ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔مقصد ان سلی چادوں میں کفن دیناہے۔مزیدتفصیل کے لیے دیکھیے:(المغني :وكتاب المجموع شرح المهذب:5/153۔154)مستحب ہے کفن سفید رنگ کا ہو۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اپنے کپڑوں میں سےسفید لباس زیب تن کیا کرو کیونکہ یہ تمہارے سب ملبوسات میں سے اوربہترین ہے اورعمدہ لباس ہے اور اپنے مرنے والوں کوبھی اسی میں کفن دیا کرو۔ (سنن أبي داود الطب حدیث:3878 وجامع الترمذي الحنائز حدیث:994) کفن صاف ستھرا اورعمدہ ہونا چاہیے‘ گھٹیا اوربوسیدہ کپڑا نہ ہو اور نہ بہت زیادہ مہنگا ۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا(إذاكفن أحدكم أخاه فلیحسن کفنه)جب تم میں سے کوئی اپنےبھائی کوکفن دے تو اسے اچھا کفن دیناچاہیے۔ (صحیح مسلم الجنائز، حدیث:943)تجہیز وتکفین میں جلدی کرنا: موت کے وقوع کے یقینی ہونے کے بعد میت کی تجہیز وتکفین میں جلدی کرنی چاہیےاکرم ﷺنے فرمايا(أسرعوا بالجنازة فان تك فخيرتقدمونها إليه و إن تك سوى ذلك تضعونه عن رقابکم )جنازہ لے جانے میں جلدی کیا کرواس لیے کہ اگر وہ نیک ہے تو پھر وہ بھلائی ہی ہے جس کی طرف تم لے جارہےہواور اگر وہ نیک نہیں ہےتوپھر جسے اپنی گردن سے اتار رہے ہو(صحيح البخاري الجنائز حدیث1315 و صحیح مسلم الجنائز، حدیث:944)اس حدیث میں لفظ (أسرعوا) سے بعض علماء نے اس کا ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا ہے کہ جنازہ اٹھا کر چلنے میں جلدی کرو‘یعنی تیز تیز چلو۔ بنابریں دونوں مفہوم ہی درست ہیں۔ والله أعلم.سوار ہو کر جانا جائز ہے؟ : جنازے کے ساتھ پیدل بھی جایا جا سکتا ہے اور سوار ہوکر بھی۔ سوارہو کر جانے کی صورت میں آگے چلنے سے احتیاط کی جائے۔ مزید دیکھیے احادیث : 1944،2058اوران کےفوائد۔ مسجد میں جنازہ پڑھنا: جنازگاه یا کھلے میدان میں نماز جنازہ پڑھنا افضل ہے لیکن مسجد میں پڑھنا بھی بلا کراہت جائز ہے۔ جب حضرت سعد بن ابی وقاص فوت ہوئے تو ام المومنین حضرت عائشہ ؓنے حکم دیا کہ ان کا جنازہ مسجد میں پڑھا جائے تا کہ وہ بھی شرکت کرسکیں۔ لوگوں نے کچھ عجیب محسوس کیا تو حضرت عائشہ ؓنے فرمایا: لوگ کس قدر جلدی بھول گئے ہیں! حالانکہ رسول اللہﷺ نے بیضاء کے دونوں بیٹوں کا جنازہ مسجد ہی میں پڑھا تھا۔ (صحیح مسلم الجنائز، حدیث: ۹۷۳) پھر حضرت عائشہؓ نے ان کا جنازہ مسجد ہی میں پڑھا تھا۔ (المصنف لعبدالرزاق:3/526۔527) خلیفۃ اول حضرت ابوبکر صدیق کا جنازہ حضرت عمر فاروق نے مسجد میں ہی پڑھایا تھا۔ (الطبقات الكبرى لابن سعد:3/206)اور حضرت عمر کا جنازہ بھی حضرت صہیب نے مسجد ہی میں پڑھایاتھا۔ (المصنف لعبدالرزاق:3/526،و السنن الكبرى للبيهقي4/52) على كل حال اگر یہ ناجائز اورمکروہ ہوتا تو خلفائے راشدین اس عمل نہ کرتے۔ نماز جنازہ کا طریقہ: نماز جنازہ رکوع سجود کے بغیر کھڑے کھڑےہی ادا کی جاتی ہے۔ سنت یہ ہے کہ امام مرد کے سرکے پاس اور عورت کے درمیان میں کھڑا ہو۔ نماز جنازہ میں چار سے نوتک تکبیریں جائز ہیں۔ لیکن اکثرعمل چارتکبیروں ہی پر ہے کیونکہ کثیر روایات میں چار تکبیرات ہی کا ذکرہے۔ پہلی تکبیر کے بعد تعوذ‘سورة فاتحہ اور ساتھ کوئی اور سورت پڑھی جائے گی ثناء پڑھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ نماز جنازہ میں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔ اصولی بات ہے کہ عبادات میں دلیل ضروری ہے یہاں صرف قیاسات و آراء سے کام نہیں چلتا کہ عام نمازوں میں تو پڑھتے ہیں تو یہاں کیوں نہیں پڑھ سکتے جبکہ معاملات میں اصل اباحت ہے الا کہ کسی نوع کے معاملے کی تربیت میں نفی یا حرمت ثابت ہوتی ہو تو وہ قابل ترک ہوگا لہذا نماز جنازہ میں کسی صحیح صریح حدیث یا کسی صحابی کے اثر اور عمل سے دعائےاستفتاح کی مشروعیت ثابت نہیں ہوتی‘کچھ محتمل اور بے جان سی دلیلیں ہیں اگر طالب حق کچھ غور اور تحقیق کام لے تو ان کی کمزوری اور ان سے وجہ استدلال کی قلعی کھل جاتی ہے۔ علمائے محققین نے اس کی بابت سیر حاصل اور ناقدانہ بحث وتحقیق سے کام لیا ہے لیکن راجح اور درست موقف یہی معلوم ہوتا ہے کہ نماز جنازہ میں دعائے استفتاح کا پڑھنا ثابت نہیں۔ والله أعلم.مزید تفصیل کے لیے دیکھیے :(أحكام الجنائز للألباني ص:151)دوسری تکبیر کے بعد درود ابراہیمی، تیسری تکبیر کے بعد دعائیں اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دیا جاتا ہے۔ اگر زائد تکبیریں کہنی ہوں تو ان میں بھی دعائیں ہی پڑھنی ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے( أحكام الجنائز وبدعها للألباني: ص:141۔146)تکبیرات جنازہ کے ساتھ رفع اليدين رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں البتہ ابن عمر کا عمل ثابت ہے۔دیکھیے(صحيح البخاري، تعليق، الجنائز ، باب سنة الصلاة على الجنازةقبل الحديث:1322، و السنن الكبرى للبيهقي4/44)لہذا افضل یہ ہے کہ جنازےکی تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین نہ کیا جائے سوائے پہلی تکبیر کے اور اگر کوئی کرتا ہے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ اس معاملےمیں تشدد مناسب نہیں۔ والله أعلم.نماز جنازہ کی دعائیں : تیسری تکبیر کے بعد مندرجہ ذیل دعاؤں میں سے کوئی دعا بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ سب دعائیں پڑھنا بھی جائز ہے۔1۔اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا، وَمَيِّتِنَا، وَصَغِيرِنَا، وَكَبِيرِنَا، وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا، وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِيمَانِ، وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِسْلَامِ، اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلَا تُضِلَّنَا بَعْدَهُ) اے اللہ! ہمارے زندہ اورمردہ کو حاضر اور غائب کو چھوٹے اور بڑےکو مرد اور عورت کو بخش دے۔ اے الله! ہم میں جسے ہے تو زندہ رکھےاسے اسلام زندہ رکھ اور ہم میں جسے تو فوت کر سے اسے ایمان پر فوت کر۔ اے الله! ہمیں . اس (میت) کے اجر سےمحروم نہ رکھ اور اس کے بعد ہمیں کسی گمراہی (آزمائش) میں نہ ڈال۔‘‘(سنن أبي داود الجنائز، حديث:3201 و سنن ابن ماجه الجنائز، حديث:1498 واللفظ له) 2۔(اللهُمَّ، اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ، وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ، وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ، وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ، وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ، وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ، وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ أَوْمِنْ عَذَابِ النَّارِ)الہی! اسے معاف فرما اس پر رحم فرما اسے عافیت میں رکھ اس سے درگزر فرما اس کی بہترین مہمانی فرما ‘اس کی قبر فراخ فرما ‘اسے (اس کے گناہ) پانی برف اور اولوں سے دھوڈال‘ اسے گناہوں سے اس طرح صاف کر دے جیسے تونے سفید کپڑے کو میل سے صاف کیا ہے۔ اسے اس کے( دنیا والے) گھر سے بہتر گھر (دنیاکے) لوگوں سے بہتر گھر والے اور اسے رفیق حیات سے بہتر رفیق عطا فرما اسے بہشت میں داخل فرما اور (فتنہ قبرعذاب قبر اور عذاب جہنم سے بچا۔‘‘ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث:963)3۔(اللَّهُمَّ إِنَّ فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ فِي ذِمَّتِكَ،وَحَبْلِ جِوَارِكَ، فَقِهِ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِوَعَذَابِ النَّارِ، وَأَنْتَ أَهْلُ الْوَفَاءِوَالْحَق، اللَّهُمَّ فَاغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ)الہٰی! فلاں کا بیٹا فلاں تیرے سپرد اور تیری حفاظت میں ہے۔ اسےفتنہ قبر اور آگ کے عذاب سے بچا تو اپنے وعدے وفا کرنے والا حق والا ہے۔(الہٰی!) اسے معاف کردے اور اس پررحم فرما‘ بلاشبہ تو بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث:3202و سنن این ماجه الجنائز، حدیث:1499، واللفظ له)جنازے کے بعد دعا : نماز جنازہ پڑھنے کے بعد وہاں کھڑے کھڑے یا بیٹھ کر دعا کرنا بدعت ہے۔ قرآن وسنت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں تاہم مٹی ڈالنے کے بعد میت کی ثابت قدمی کے لیے دعا کرنا ثابت ہے۔ حضرت عثمان بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب میت کی تد فین سے فارغ ہوتے تو قبر کے پاس کھڑے ہو جاتے اور فرماتے۔اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور ثابت قدم رہنے کی دعا کرو کیونکہ اب اس سے باز پرس کی جائے گی ۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث:3221)قبر کی بناوٹ : قبر دوقسم کی ہوتی ہے: ایک لحد ‘ یعنی بغلی قبر اور دوسری شق ‘جس میں میت رکھنے کی جگہ قبر کے درمیان میں چھوٹا گڑھا کھود کر بنائی جاتی ہے۔ دونوں طریقے جائز ہیں البتہ لحد افضل ہے۔ کیونکہ نبی اکرمﷺکی قبرلحد والی پائی گئی تھی ۔ (سنن ابن ماجه، الجنائز حديث:1557)قبر گہری اور وسیع ہونی چاہیے کیونکہ گہری قبر میں میت زیادہ محفوظ رہتی ہے نیزوسیع قبر میں دفن کرنا آسان ہوتاہے۔پکی قبر بنانا حرام ہے۔ حضرت جابر بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے قبر کو پختہ بنانے اس پر بیٹھنے اور اس پرعمارت بنانے سے فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم الجنائز، حدیث:970)طریقہ تدفین : میت کو قبر کی پاوں والی جانب سے قبر میں داخل کیا جائے۔ سیدنا حارث نے وصیت کی تھی کہ میرا جنازہ عبداللہ بن یزید پڑھائیں۔ انھوں نے ان کا جنازہ پڑھایا‘ پھر انھیں قبر کی پائینتی کی طرف سے قبر میں اتارا اور کہا کہ سنت طریقہ یہی ہے۔ (سنن أبي داود، الجنائز حدیث:3211)قبر میں اتارتے وقت یہ دعا پڑھی جائے(بسم مالله و علی سنة رسول الله) اللہ کے نام سے اور رسول اللہﷺ کی سنت کے مطابق(تمہیں دفن کرتے ہیں۔) (سنن أبي داود، الجنائز حدیث: 3213)میت کو قبر میں لٹاتے وقت اس کا منہ قبلے کی طرف کرنا چاہیے۔ اس کی دو صورتیں ہیں: چت لٹا کر صرف قبلہ کی طرف منہ کر دیا جائےیا دائیں جانب لٹا کر پورا پہلوقبلہ رخ کردیا جائے۔ بہتر ہے کہ دوسری صورت کو اختیار کیا جائے کیونکہ سونے کے وقت اسی حالت کو پسند کیا گیا ہے اور اس حالت پر موت آ نے کو فطرت کے مطابق قرار دیا گیا ہے۔اس کے بعد قبر کو بند کیا جائے گا جس کے لیےکچی اینٹی استعمال کرنا بہتر ہے پھر قبر سے نکالی ہوئی مٹی قبر میں ڈالی جائے اور قبر کو ایک بالشت سے اونچا نہ کیا جائے اگر چہ قبر سے نکالی ہوئی مٹی بچ جائے۔ نبی اکرم ﷺکی قبر مبارک صرف ایک بالشت اونچی بنائی گئی تھی۔ (السنن الكبرى للبيهقي:3/410)سوگ :موت کی مصیبت ہی چونکہ ایسی اندوہناک ہے کہ ان سے مصیبت زدہ کوغم وحزن کالا حق ہونا ایک طبعی امر ہے اہد اللہ تعالی نے ہمیں تھوڑے سے سوگ کی اجازت دی ہے لیکن صرف تین دن تک اور اس مدت میں آدمی اپنے غم کا اظہار کر کے راحت حاصل کرسکتا ہے۔ اگر اس سے زیادہ مدت تک سوگ کا اظہار کیا جائے پھر اس میں خرابی کاپہلو راجح ہوگا‘ لہذا اس سے شریعت نے منع کردیا ہے۔ ہاں البتہ تین دن تک مردوں پر سوگ کی اجازت ہے لیکن بیوی اپنے شوہر کی وفات کی وجہ سے عدت کا ساراعرصہ سوگ میں گزارے گی۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا( لا تحد امرأة على میت فوق ثلاث إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا ولا تلبس ثوبا مصبوغا إلا ثوب عصب و لا تكتحل ولا تمس طيبا إلا إذا طهرت نبذۃ من قسط أو أظفار)کوئی عورت کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائےسوائے خاوند کے کہ اس پر چار ماہ دس دن سوگ منائے۔ (سوگ کی مدت میں) رنگ دارلباس نہ پہنےلیکن (رنگے ہوئے سوت کا) دھاری دار کپڑاپہن سکتی ہے۔نہ سرمہ لگائے خوشبو کو چھوئے گر جب ایام حیض سے پاک ہوتو تھوڑی سی عود ہندی یا اظفار(خوشبو) استعمال کر سکتی ہے۔(صحيح البخاري الطلاق حديث:5341وصحيح مسلم الطلاق حديث:938 بعدالحديث:1491 واللفظ له) اسی طرح زینت اور بناؤ سنگھار کی کوئی اور چیز بھی استعمال نہ کرے مثلا: زیوروغیرہ گھر سے باہر نہ نکلے الا یہ کہ اشد مجبوری ہو نیز عدت کے ایام خاوند کے گھر میں گزارے۔ سیدہ زینب بنت جحش ؓکا بھائی فوت ہوگیا تین دن کے بعد انھوں نے خوشبو منگوائی اور اسے ملا‘پھر کہا: مجھے خوشبو کی ضرورت نہ مگر میں نے رسول اللهﷺسےسناجو عورت اللہ اور روز قيامت پر ایمان رکھتی ہے اس کے لیے حلال نہیں کہ تین دن سے زیادہ کی میت پرسوگ کرے سوائے شوہر کےکہ ان کا سوگ چار ماہ دس دن ہے۔ (صحیح البخاري الجنائز، حدیث:1282)سیدہ ام عطیہؓ کا بیٹا فوت ہو گیا۔ تیسرے دن انھوں نے زردی منگوا کر بدن پرملی اور کہا:ہمارے لیے شہر کے علاوہ کسی اور کی وفات پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا ممنوع ہے۔ (صحیح البخاري الجنائر حديث:1279)تعزیت: موت کی وجہ سے مصیبت زدہ سے تعزیت کرنا شرعا جائز ہے اس میں کوئی اشکال نہیں لیکن تعزیت کرنے کے لیے کوئی وقت یا ایام مخصوص نہیں۔ تین دن یا چار ماہ اور دس دن سوگ کے لیے ہیں نہ کی تعزیت کے لیے۔بنابریں تعزیت دفن سے پہلے بھی کی جاسکتی ہے اور بعد میں بھی اس میں کوئی حرج نہیں لیکن مصیبت کے بعد جس قدر جلدی اور قریبی وقت میں تعزیت ہوگی اسی قدر مصیبت کی تخفیف کاذریعہ ثابت ہوگی۔ تعزیت سے مراداہل میت کو صبر کی تلقین ان کے لیے دعائے خیر اورمیت کے لیے دعائے مغفرت کرنا ہے۔تعزیت کے مسنون الفاظ اس طرح ہیں(إن لله ما أخذ وله ما أعطى وكل شي عنده بأجل مسمى فلتصبرولتحتسب)یقینا الله کا مال ہے جو اس نے لیا ہے اور اسی کا ہے جو اس نے د ے رکھا ہے اس کے ہاں ہر کا وقت مقرر ہے لہذاصبر کر کے اس کا اجر وثواب حاصل کرنا چاہیے۔(صحيح البخاري الحنائز، حدیث:1284(وصحيح مسلم الجنائز، حدیث:923، واللفظ له) عرض تین دن تک چٹائیاں بچھا کر بیٹھنا خلاف سنت ہے۔والله أعلم.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے (حضرت سعد بن معاذ ؓ کے دفن کے وقت) فرمایا: ”یہ شخص جس کے لیے عرش جھوم گیا، اس (کی روح) کے لیے آسمان کے تمام دروازے کھول دیے گئے اور اس کے جنازے پر ستر ہزار فرشتے حاضر ہوئے، وہ بھی بھینچ دیا گیا مگر پھر اسے چھوڑ دیا گیا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”جھوم گیا“ یعنی ان کے استقبال کی خوشی میں۔ یہ معنیٰ ان کی عظمت و شان پر دلالت کرتے ہیں۔ (2) ”بھینچا گیا“ کیونکہ ہر انسان میں کوئی نہ کوئی کمی ہوتی ہے (علاوہ انبیاء علیہم السلام کے کہ وہ معصوم ہوتے ہیں۔) اس بھینچنے سے وہ اس کمی کے اثر سے نجات پا لیتا ہے بشرطیکہ وہ مومن ہو۔ مومن کو صرف ایک دفعہ بھینچا جاتا ہے، پھر چھوڑ دیا جاتا ہے مگر کچھ عجب نہیں کہ کافر پر یہ عذاب بار بار ہوتا ہو۔ حدیث میں آتا ہے کہ قبر ہر ایک کو بھینچتی ہے، اگر اس سے کوئی محفوظ رہتا تو یقیناً حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ محفوظ رہتے۔ (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: ۳۲۷/۴۰، رقم: ۲۴۲۸۳، والصحیحة: ۲۶۸/۴، رقم: ۱۶۹۵) (3) اس کی توجیہ میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ”قبر“ انسان کے لیے ماں کی طرح ہے کیونکہ وہ اسی مٹی سے بنایا گیا تھا۔ عرصۂ دراز کے بعد ملنے والے بیٹے کو ماں خوب زور سے اپنے جسم کے ساتھ بھینچتی ہے، چاہے اسے اس سے تکلیف ہی ہو۔ قبر کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، البتہ نیک شخص کو وہ محبت سے بھینچتی ہے اور برے شخص کو غصے اور ناراضی سے۔ نیک کے لیے اس میں سرور ہے اور برے کے لیے عذاب۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہی وہ شخص ہے جس کے لیے عرش الہٰی ہل گیا، آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے، اور ستر ہزار فرشتے اس کے جنازے میں شریک ہوئے، (پھر بھی قبر میں) اسے ایک بار بھینچا گیا، پھر (یہ عذاب) اس سے جاتا رہا۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس سے مراد سعد بن معاذ رضی الله عنہ ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that: Al-Bara said about Allah will keep firm those who believe, with the word that stands firm in this world and in the Hereafter "It was revealed concerning the torment of the grave.