Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: The Obligation of Fasting)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2092.
حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم مسجد میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی اونٹ پر سوار ہو کر آیا۔ اس نے اونٹ کو مسجد میں بٹھا دیا، پھر اس کا گھٹنا باندھ دیا اور کہنے لگا: تم میں سے محمد(ﷺ) کون ہیں؟ رسول اللہﷺ لوگوں کے درمیان بیٹھے تھے۔ ہم نے کہا: یہ سفید چہرے والے شخص جو ٹیک لگا کر بیٹھے ہیں۔ تو وہ شخص (آپ سے مخاطب ہو کر) کہنے لگا: اے ابن عبدالمطلب! رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’بات کر میں تجھے جواب دوں گا۔‘‘ (یعنی میں تیری باتیں سن رہا ہوں۔) اس آدمی نے کہا: اے محمد! میں آپ سے کچھ باتیں پوچھنے لگا ہوں اور میں سخت الفاظ میں پوچھوں گا تو آپ ناراضی محسوس نہ فرمائیے گا۔ آپ نے فرمایا: ’’جو دل چاہے پوچھ۔‘‘ اس نے کہا: میں آپ سے آپ کے اور پہلے تمام لوگوں کے رب کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف رسول بنایا ہے؟ رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! ہاں۔‘‘ اس نے کہا: میں آپ سے اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں: کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ ہم دن، رات میں پانچ نمازیں پڑھا کریں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! ہاں۔‘‘ اس نے کہا: تو میں آپ کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں: کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو سال میں سے اس مہینے (رمضان المبارک) کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے؟ فرمایا: ’’اللہ کی قسم! ہاں۔‘‘ اس نے کہا: میں آپ سے اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں: کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ ہمارے مال دار لوگوں سے زکاۃ لے کر ہمارے غریب لوگوں میں بانٹ دیں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! ہاں۔‘‘ اس آدمی نے کاہ: میں ان تمام چیزوں پر ایمان لاتا ہوں جو آپ لائے ہیں اور میں اپنی قوم کی طرف سے قاصد ونمائندہ ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے اور میں قبیلہ سعد بن بکر سے تعلق رکھتا ہوں۔‘‘ یعقوب بن ابراہیم نے عیسیٰ بن حماد کی مخالفت کی ہے۔
تشریح:
(1) یہ دونوں حضرت لیث کے شاگرد ہیں۔ یعقوب بن ابراہیم نے حضرت لیث اور سعید کے درمیان ابن عجلان وغیرہ کا واسطہ ذکر کیا ہے جبکہ عیسیٰ بن حماد نے کوئی ایسا واسطہ ذکر نہیں کیا۔ اور یہی روایت درست ہے۔ واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ بہت سمجھ دار شخص تھے کہ آپ کے پاس حاضری اور اظہار ایمان میں جلد بازی نہیں کی۔ تسلی سے اونٹ کو بٹھایا، گھٹنا باندھا، پوری تحقیق و تفتیش کی اور اس میں کسی قسم کی رعایت نہیں کی۔ جب یقین ہوگیا تو پھر اپنے ایمان کا اعلان کیا اور پھر اپنا تعارف کروایا۔ یہ اپنی قوم کے سردار تھے… (2) ”ابن عبدالمطلب“ عرب میں اسی نسبت سے مشہور تھے کیونکہ آپ کے دادا عبدالمطلب مشہور شخصیت تھے جبکہ آپ کے والد شہرت یاب ہونے سے پہلے اور آپ کی پیدائش سے بھی پہلے فوت ہو چکے تھے۔ اس وقت وہ بالکل نوجوان تھے، لہٰذا وہ زیادہ معروف نہ تھے، نیز آپ کی ابتدائی پرورش بھی آپ کے دادا ہی نے کی تھی۔ خود رسول اللہﷺ نے بھی غزوۂ حنین میں یوں ہی کہا تھا: [اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ](صحیح البخاري، الجهاد والسیر، حدیث: ۲۸۴۲، وصحیح مسلم، الجهاد، حدیث ۱۷۷۶) (3) حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کو دین اسلام کا پیغام پہنچ چکا تھا۔ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ مزید تصدیق اور اعلان کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ (4) مندرجہ بالا تینوں روایات کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوں الگ الگ واقعات ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ دوسرا اور تیسرا ایک ہی واقعہ ہے اور ان میں جو اختلاف ہے یہ رواۃ کے بیان کا اختلاف ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2093
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2091
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2094
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم مسجد میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی اونٹ پر سوار ہو کر آیا۔ اس نے اونٹ کو مسجد میں بٹھا دیا، پھر اس کا گھٹنا باندھ دیا اور کہنے لگا: تم میں سے محمد(ﷺ) کون ہیں؟ رسول اللہﷺ لوگوں کے درمیان بیٹھے تھے۔ ہم نے کہا: یہ سفید چہرے والے شخص جو ٹیک لگا کر بیٹھے ہیں۔ تو وہ شخص (آپ سے مخاطب ہو کر) کہنے لگا: اے ابن عبدالمطلب! رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’بات کر میں تجھے جواب دوں گا۔‘‘ (یعنی میں تیری باتیں سن رہا ہوں۔) اس آدمی نے کہا: اے محمد! میں آپ سے کچھ باتیں پوچھنے لگا ہوں اور میں سخت الفاظ میں پوچھوں گا تو آپ ناراضی محسوس نہ فرمائیے گا۔ آپ نے فرمایا: ’’جو دل چاہے پوچھ۔‘‘ اس نے کہا: میں آپ سے آپ کے اور پہلے تمام لوگوں کے رب کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف رسول بنایا ہے؟ رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! ہاں۔‘‘ اس نے کہا: میں آپ سے اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں: کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ ہم دن، رات میں پانچ نمازیں پڑھا کریں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! ہاں۔‘‘ اس نے کہا: تو میں آپ کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں: کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو سال میں سے اس مہینے (رمضان المبارک) کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے؟ فرمایا: ’’اللہ کی قسم! ہاں۔‘‘ اس نے کہا: میں آپ سے اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں: کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ ہمارے مال دار لوگوں سے زکاۃ لے کر ہمارے غریب لوگوں میں بانٹ دیں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! ہاں۔‘‘ اس آدمی نے کاہ: میں ان تمام چیزوں پر ایمان لاتا ہوں جو آپ لائے ہیں اور میں اپنی قوم کی طرف سے قاصد ونمائندہ ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے اور میں قبیلہ سعد بن بکر سے تعلق رکھتا ہوں۔‘‘ یعقوب بن ابراہیم نے عیسیٰ بن حماد کی مخالفت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ دونوں حضرت لیث کے شاگرد ہیں۔ یعقوب بن ابراہیم نے حضرت لیث اور سعید کے درمیان ابن عجلان وغیرہ کا واسطہ ذکر کیا ہے جبکہ عیسیٰ بن حماد نے کوئی ایسا واسطہ ذکر نہیں کیا۔ اور یہی روایت درست ہے۔ واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ بہت سمجھ دار شخص تھے کہ آپ کے پاس حاضری اور اظہار ایمان میں جلد بازی نہیں کی۔ تسلی سے اونٹ کو بٹھایا، گھٹنا باندھا، پوری تحقیق و تفتیش کی اور اس میں کسی قسم کی رعایت نہیں کی۔ جب یقین ہوگیا تو پھر اپنے ایمان کا اعلان کیا اور پھر اپنا تعارف کروایا۔ یہ اپنی قوم کے سردار تھے… (2) ”ابن عبدالمطلب“ عرب میں اسی نسبت سے مشہور تھے کیونکہ آپ کے دادا عبدالمطلب مشہور شخصیت تھے جبکہ آپ کے والد شہرت یاب ہونے سے پہلے اور آپ کی پیدائش سے بھی پہلے فوت ہو چکے تھے۔ اس وقت وہ بالکل نوجوان تھے، لہٰذا وہ زیادہ معروف نہ تھے، نیز آپ کی ابتدائی پرورش بھی آپ کے دادا ہی نے کی تھی۔ خود رسول اللہﷺ نے بھی غزوۂ حنین میں یوں ہی کہا تھا: [اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ](صحیح البخاري، الجهاد والسیر، حدیث: ۲۸۴۲، وصحیح مسلم، الجهاد، حدیث ۱۷۷۶) (3) حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کو دین اسلام کا پیغام پہنچ چکا تھا۔ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ مزید تصدیق اور اعلان کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ (4) مندرجہ بالا تینوں روایات کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوں الگ الگ واقعات ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ دوسرا اور تیسرا ایک ہی واقعہ ہے اور ان میں جو اختلاف ہے یہ رواۃ کے بیان کا اختلاف ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں : ہم مسجد میں بیٹھے تھے کہ اسی دوران ایک شخص اونٹ پر آیا ، اسے مسجد میں بٹھایا پھر اسے باندھا ، ( اور ) لوگوں سے پوچھا : تم میں محمد کون ہیں ؟ اور رسول اللہ ﷺ ان کے درمیان ٹیک لگائے بیٹھے تھے ۔ تو ہم نے اس سے کہا : یہ گورے چٹے آدمی ہیں ، جو ٹیک لگائے بیٹھے ہیں ، آپ کو پکار کر اس شخص نے کہا : اے عبدالمطلب کے بیٹے ! تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : ” میں نے تمہاری بات سن لی “ ( کہو کیا کہنا چاہتے ہو ) اس نے کہا : محمد ! میں آپ سے کچھ پوچھنے والا ہوں ، ( اور ذرا ) سختی سے پوچھوں گا تو آپ دل میں کچھ محسوس نہ کریں ، آپ نے فرمایا : ” پوچھو جو چاہتے ہو “ ، تو اس نے کہا : میں آپ کو آپ کے ، اور آپ سے پہلے ( جو گزر چکے ہیں ) ان کے رب کی قسم دلاتا ہوں ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف ( رسول بنا کر ) بھیجا ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے کہا : ” اے اللہ ! ( میری بات پر گواہ رہنا ) ہاں “ ، ( پھر ) اس نے کہا : میں اللہ کی قسم دلاتا ہوں ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو دن اور رات میں پانچ ( وقت کی ) نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اے اللہ ! ( گواہ رہنا ) ہاں “ ، ( پھر ) اس نے کہا : میں آپ کو اللہ کی قسم دلاتا ہوں ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو سال کے اس ماہ میں روزے رکھنے کا حکم دیا ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اے اللہ ! ( گواہ رہنا ) ہاں ، “ ( پھر ) اس نے کہا : میں آپ کو اللہ کی قسم دلاتا ہوں ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو مالداروں سے زکاۃ لے کر غریبوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے کہا : ” اے اللہ ! ( گواہ رہنا ) ہاں “ ، تب ( اس ) شخص نے کہا : میں آپ کی لائی ہوئی ( شریعت ) پر ایمان لایا ، میں اپنی قوم کا جو میرے پیچھے ہیں قاصد ہوں ، اور میں قبیلہ بنی سعد بن بکر کا فرد ضمام بن ثعلبہ ہوں ۔ یعقوب بن ابراہیم نے حماد بن عیسیٰ کی مخالفت کی ہے ۱؎ ۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ مخالفت اس طرح ہے کہ انہوں نے لیث اور سعید کے درمیان ابن عجلان کا واسطہ بڑھایا ہے، ان کی روایت آگے آ رہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Anas bin Malik (RA) said: "while we were with the Messenger of Allah, sitting in the Masjid, a man entered on a camel. He made it kneel in the Masjid, then he hobbled it. Then he said; 'Which of you is Muhammad?' He was reclining among them, and we said to him: 'This white man who is reclining.' The man said to him: 'O son of 'Abdul-Muttalib.' The Messenger of Allah said to him: 'I have answered you.' The man said: 'O Muhammad, I am going to ask you questions and I will be harsh in asking.' He said; 'Ask whatever you like.' The man said; 'I adjure you by your Lord, and the Lord of those who came begfore you, has Allah sent you to all the people?' The Messenger of Allah said: 'by Allah, yes,' He said: 'Iadjure you by Allah, has Allah commanded you to fast this month each year?' The Messenger of Allah said: 'I adjure you by Allah, has Allah commanded you to take this charity from our rich and divide it among our poor?' The Messenger of Allah said: 'By Allah, Yes.' The ma said; 'I believe in that which you have brought, and I am the envoy of my people who are coming after me. I am Dimam bin Thalabah, the brother of Banu sad bin Bakr."' (Sahih) 'Ubaidullah bin 'Umar contradicted him.