Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: The Obligation of Fasting)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2093.
حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ ہم ایک دفعہ رسول اللہﷺ کے پاس مسجد میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی اونٹ پر سوار ہو کر آیا۔ اس نے اسے مسجد میں بٹھا دیا، پھر اس کا گھٹنا باندھا، پھر کہنے لگا: تم میں سے محمد(ﷺ) کون ہے؟ اس وقت آپ لوگوں کے درمیان ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ تو ہم نے اس سے کہا: یہ روشن چہرے والے شخص جو ٹیک لگا کر بیٹھے ہیں۔ وہ آپ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا: اے ابن عبدالمطلب! آپ نے فرمایا:”میں نے تجھے جواب دیا ہے۔“ (میری تیری بات سن رہا ہوں۔) اس نے کہا: اے محمد(ﷺ)! میں آپ سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں اور وہ سوالات میں سخت الفاظ میں کروں گا۔ آپ نے فرمایا: ”جو جی چاہے پوچھ۔“ اس نے کہا: میں آپ کو آپ کے اور آپ سے پہلے لوگوں کے رب کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے رسول بنایا ہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! ہاں۔“ اس نے کہا: میں آپ سے اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ سال کے اس مہینے کے روزے رکھیں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! ہاں۔‘‘ اس نے کہا: میں آپ سے اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ ہمارے مال دار لوگوں سے زکاۃ لے کر ہمارے غریب لوگوں میں بانٹ دیں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! ہاں۔‘‘ وہ آدمی کہنے لگا: میں ان احکام پر ایمان لاتا ہوں جو آپ لائے ہیں۔ اور میں اپنی قوم کا قاصد ونمائندہ ہوں۔ اور میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے۔ میں قبیلہ سعد بن بکر سے تعلق رکھتا ہوں۔ عبیداللہ بن عمر نے لیث بن سعد کی مخالفت کی ہے۔
تشریح:
یہ مخالفت بھی سند میں ہے۔ اس میں عبیداللہ بن عمر لیث بن سعد کی مخالفت یوں کرتے ہیں کہ لیث اسے بواسطہ سعید المقبری شریک بن عبداللہ سے اور وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، یہی روایت راجح ہے، ابوحاتم اور امام دارقطنی نے اسے ہی ترجیح دی ہے۔ جبکہ عبیداللہ بن عمر نے سعید المقبری عن ابی ہریرۃ کی سند سے روایت کیا ہے۔ بہرکیف اس اختلاف سے متن پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ صحیحین وغیرہ میں یہ روایت اسی طرح آتی ہے۔ دیکھیے (ذخیرة العقبیٰ: ۲۰ ۲۳۵)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2094
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2092
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2095
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ ہم ایک دفعہ رسول اللہﷺ کے پاس مسجد میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی اونٹ پر سوار ہو کر آیا۔ اس نے اسے مسجد میں بٹھا دیا، پھر اس کا گھٹنا باندھا، پھر کہنے لگا: تم میں سے محمد(ﷺ) کون ہے؟ اس وقت آپ لوگوں کے درمیان ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ تو ہم نے اس سے کہا: یہ روشن چہرے والے شخص جو ٹیک لگا کر بیٹھے ہیں۔ وہ آپ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا: اے ابن عبدالمطلب! آپ نے فرمایا:”میں نے تجھے جواب دیا ہے۔“ (میری تیری بات سن رہا ہوں۔) اس نے کہا: اے محمد(ﷺ)! میں آپ سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں اور وہ سوالات میں سخت الفاظ میں کروں گا۔ آپ نے فرمایا: ”جو جی چاہے پوچھ۔“ اس نے کہا: میں آپ کو آپ کے اور آپ سے پہلے لوگوں کے رب کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے رسول بنایا ہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! ہاں۔“ اس نے کہا: میں آپ سے اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ سال کے اس مہینے کے روزے رکھیں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! ہاں۔‘‘ اس نے کہا: میں آپ سے اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ ہمارے مال دار لوگوں سے زکاۃ لے کر ہمارے غریب لوگوں میں بانٹ دیں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! ہاں۔‘‘ وہ آدمی کہنے لگا: میں ان احکام پر ایمان لاتا ہوں جو آپ لائے ہیں۔ اور میں اپنی قوم کا قاصد ونمائندہ ہوں۔ اور میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے۔ میں قبیلہ سعد بن بکر سے تعلق رکھتا ہوں۔ عبیداللہ بن عمر نے لیث بن سعد کی مخالفت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ مخالفت بھی سند میں ہے۔ اس میں عبیداللہ بن عمر لیث بن سعد کی مخالفت یوں کرتے ہیں کہ لیث اسے بواسطہ سعید المقبری شریک بن عبداللہ سے اور وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، یہی روایت راجح ہے، ابوحاتم اور امام دارقطنی نے اسے ہی ترجیح دی ہے۔ جبکہ عبیداللہ بن عمر نے سعید المقبری عن ابی ہریرۃ کی سند سے روایت کیا ہے۔ بہرکیف اس اختلاف سے متن پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ صحیحین وغیرہ میں یہ روایت اسی طرح آتی ہے۔ دیکھیے (ذخیرة العقبیٰ: ۲۰ ۲۳۵)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں : ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس مسجد میں بیٹھے تھے کہ اسی دوران ایک شخص اونٹ پر سوار آیا، اس نے اسے مسجد میں بٹھا کر باندھا (اور) لوگوں سے پوچھا: تم میں محمد کون ہیں؟ اور آپ ﷺ لوگوں کے درمیان ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ ہم نے اس سے کہا: یہ گورے چٹے آدمی ہیں جو ٹیک لگائے ہوئے ہیں، تو (اس) شخص نے (پکار کر) آپ سے کہا: اے عبدالمطلب کے بیٹے! تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ”میں نے تمہاری بات سن لی“، (کہو کیا کہنا چاہتے ہو) تو اس شخص نے کہا: اے محمد! میں آپ سے کچھ پوچھنے والا ہوں (اور ذرا) سختی سے پوچھوں گا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”پوچھو جو تم پوچھنا چاہتے ہو“ ، تو اس آدمی نے کہا: میں آپ کو آپ کے، اور آپ سے پہلے (جو گزر چکے ہیں) کے رب کی قسم دلاتا ہوں! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف (رسول بنا کر) بھیجا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے کہا: ”اے اللہ! (گواہ رہنا) ہاں“، پھر اس نے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دلاتا ہوں! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو سال کے اس ماہ کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اے اللہ! (گواہ رہنا!) ہاں“، (پھر) اس نے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دلاتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ ہمارے مالداروں سے یہ صدقہ لو اور اسے ہمارے غریبوں میں تقسیم کرو، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے اللہ! (گواہ رہنا) ہاں“، تب (اس) شخص نے کہا: میں آپ کی لائی ہوئی (شریعت) پہ ایمان لایا، میں اپنی قوم کا جو میرے پیچھے ہے قاصد ہوں، اور میں بنی سعد بن بکر کا فرد ضمام بن ثعلبہ ہوں۔ عبیداللہ بن عمر نے ابن عجلان کی مخالفت کی ہے۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ مخالفت اس طرح ہے کہ انہوں نے اسے «عن سعید بن ابی سعید المقبری عن ابی ہریرۃ» کے طریق سے روایت کیا ہے، اور ابن عجلان نے اسے «عن سعید عن شریک عن انس» کے طریق سے روایت کیا ہے، اور یہ مخالفت ضرر رساں نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ سعید نے دونوں سے سنا ہو تو انہوں نے کبھی اس طرح طریق سے روایت کیا ہو، اور کبھی اس طریق سے (عبیداللہ کی روایت آگے آ رہی ہے)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah said: "While the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) was with his Companions a man from among the desert people came and said: 'Which of you is the son of 'Abdul-Muttalib?' They said: 'This Anghar man who is reclining on a pillow.' (One of the narrators) Hamzah said: "Amghar means white with a reddish complexion.'- The man said: 'I am going to ask you questions and I will be harsh in asking.' He said: 'ask whatever you like.' He said: 'I ask you by your Lord and the Lord of those who came before you, and the Lord of those who will come after you; has Allah sent you?' He said: 'By Allah, yes.' He said: 'I adjure you by Him, has Allah commanded you to offer five prayers each day and night?' He said: 'By Allah, yes.; He said: 'I adjure you by Him, has Allah commanded you to take from the wealth of our rich and give it to our poor?' he said: 'By Allah, yes He said: 'I adjure you by Allah, has Allah commanded you to fast this month out of the twelve months?' He said: 'By Allah, yes.' He said: 'I adjure you by Him, has Allah commanded you to go on pilgrimage to this House, where can afford it?' He said: 'By Allah yes.' He said: 'I belive, and I am Dimam bin Thalabah."'