باب: اس روایت میں معمر کے شاگردوں کے اختلاف کا بیان
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: Mentioning Different Reports From Mamar Concerning That)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2107.
حضرت عرفجہ سے منقول ہے کہ ہم حضرت عتبہ بن فرقد ؓ کی بیمار پرسی کے لیے گئے۔ وہاں ہم رمضان المبارک کا تذکرہ کرنے لگے۔ انہوں نے کہا: تم کیا ذکر کر رہے ہو؟ ہم نے عرض کیا: ماہ رمضان کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے: ”اس ماہ مبارک میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور آگ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں اور ہر رات ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے: اے نیکی کے طلب گار! ادھر آ۔ اور اے گناہ کے طلب گار! رک جا۔“ ابوعبدالرحمن (امام نسائی) ؓ بیان کرتے ہیں: یہ حدیث غلط ہے۔
تشریح:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ مذکورہ روایت کی سند میں خطا ہے۔ سفیان بن عیینہ کا اسے عطاء بن سائب، عن عرفجۃ، عن عتبۃ بن فرقد کے طریق سے بیان کرنا درست نہیں کیونکہ اس طرح یہ روایت عتبہ بن فرقد کی سند سے شمار ہوگی، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وہ اس طرح کی یہ روایت عرفجۃ عن عتبۃ کے بجائے عرفجۃ عَنْ رَجُلٍ مِنْ اصْحَابِ النَّبِیِّ چاہیے کہ عرفجہ ایک صحابی رسول سے روایت کرتا ہے۔ (2) ”اعلان کرتا ہے۔“ اللہ تعالیٰ کی اس کائنات کا انتظام اللہ تعالیٰ کے حسب ہدایت ہوتا ہے اور فرشتے اس پر عمل درآمد کرتے ہیں، لہٰذا ہمارے سننے، نہ سننے سے اس اعلان پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب سچے نبیﷺ نے بتلا دیا تو ہر مومن کو یہ اعلان اپنے دل کے کانوں سے سننا چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2108
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2106
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2109
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
حضرت عرفجہ سے منقول ہے کہ ہم حضرت عتبہ بن فرقد ؓ کی بیمار پرسی کے لیے گئے۔ وہاں ہم رمضان المبارک کا تذکرہ کرنے لگے۔ انہوں نے کہا: تم کیا ذکر کر رہے ہو؟ ہم نے عرض کیا: ماہ رمضان کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے: ”اس ماہ مبارک میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور آگ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں اور ہر رات ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے: اے نیکی کے طلب گار! ادھر آ۔ اور اے گناہ کے طلب گار! رک جا۔“ ابوعبدالرحمن (امام نسائی) ؓ بیان کرتے ہیں: یہ حدیث غلط ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ مذکورہ روایت کی سند میں خطا ہے۔ سفیان بن عیینہ کا اسے عطاء بن سائب، عن عرفجۃ، عن عتبۃ بن فرقد کے طریق سے بیان کرنا درست نہیں کیونکہ اس طرح یہ روایت عتبہ بن فرقد کی سند سے شمار ہوگی، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وہ اس طرح کی یہ روایت عرفجۃ عن عتبۃ کے بجائے عرفجۃ عَنْ رَجُلٍ مِنْ اصْحَابِ النَّبِیِّ چاہیے کہ عرفجہ ایک صحابی رسول سے روایت کرتا ہے۔ (2) ”اعلان کرتا ہے۔“ اللہ تعالیٰ کی اس کائنات کا انتظام اللہ تعالیٰ کے حسب ہدایت ہوتا ہے اور فرشتے اس پر عمل درآمد کرتے ہیں، لہٰذا ہمارے سننے، نہ سننے سے اس اعلان پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب سچے نبیﷺ نے بتلا دیا تو ہر مومن کو یہ اعلان اپنے دل کے کانوں سے سننا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عرفجہ کہتے ہیں کہ ہم نے عتبہ بن فرقد کی عیادت کی تو ہم نے ماہ رمضان کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے پوچھا: تم لوگ کیا ذکر کر رہے ہو؟ ہم نے کہا: ماہ رمضان کا، تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: ”اس میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں، اور ہر رات منادی آواز لگاتا ہے: اے خیر (بھلائی) کے طلب گار! خیر کے کام میں لگ جا،۱؎ اور اے شر (برائی) کے طلب گار! برائی سے باز آ جا۔“ ۲؎ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی) کہتے ہیں: یہ غلط ہے۔۳؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : کیونکہ یہی اس کا وقت ہے کیونکہ اس وقت معمولی عمل پر بہت زیادہ ثواب دیا جاتا ہے۔ ۲؎ : اور توبہ کر لے کیونکہ یہی توبہ کا وقت ہے۔ ۳؎ : غلط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس روایت میں ہے کہ عرفجہ نے اسے عتبہ بن فرقد رضی الله عنہ کی روایت بنا دیا ہے، جب کہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ کسی اور صحابی سے مروی ہے، جیسا کہ اگلی روایت میں آ رہا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that ‘Arfajah Said: “We visited ‘Utbah bin Farqad (when he was ill) and we talked about the month of Ramdan. He said: ‘What are you talking about?’ We said: ‘The month of Ramadan.’ He said: ‘I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: In it the gates of Paradise are opened and the gates of the Fire are closed, and the devils are chained up, and a caller calls out every night: doer of good, proceed; doer of evil, desist!” (Hasan) Abu ‘Abdur-Rahman (An-Nasa’i) said: This is a mistake.