باب: سحری تاخیر سے(آخر وقت میں)کھانے کابیان نیز اس حدیث میں زرکے شاگردوں کا اختلاف
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: Delaying Sahur and Mentioning the Differences Reported from Zirr about that)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2153.
حضرت زر بن حبیش بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت حذیفہ ؓ کے ساتھ سحری کھائی، پھر ہم نماز کے لیے نکلے۔ جب ہم مسجد میں آئے تو دو رکعتیں پڑھیں۔ اتنے میں جماعت کھڑی ہوگئی۔ سنتوں اور اقامت کے درمیان بالکل معمولی فاصلہ تھا۔
تشریح:
(1) یہ روایت ضعیف ہے، بشرط صحت اس حدیث میں ”دن“ سے ”شرعی دن“ مراد ہوگا جو طلوع فجر سے شروع ہوتا ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا مقصود یہ ہے کہ سحری طلوع فجر کے بالکل قریب کھانی چاہیے تاکہ سحری کے مقاصد مکمل طور پر حاصل ہوں۔ بہت پہلے سحری کھانے سے روزہ نبھانا مشکل ہو جاتا ہے اور اگر سحری کے بعد نیند آگئی تو تہجد تو ایک طرف، فرض نماز بھی رہ جائے گی۔ (2) سَحْری، سحَْر سے ہے جس کے معنیٰ ہیں: رات کا آخری حصہ لہٰذا سحری ہے ہی وہ جو رات کے آخری حصے یعنی طلوع فجر سے عین پہلے ہو، زیادہ دیر پہلے کھانا عام کھانا ہوگا، سحری نہ ہوگا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2154
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2152
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2155
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
تمہید باب
پہلی روایت میں رسول اللہﷺکے ساتھ سحری کھانے کا ذکر ہے جبکہ دوسری روایت میں حضرت حذیفہ کے ساتھ۔ گویا مرفوع اور موقوف کا اختلاف ہے لیکن مرفوعاً یہ روایت ضعیف ہے۔
حضرت زر بن حبیش بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت حذیفہ ؓ کے ساتھ سحری کھائی، پھر ہم نماز کے لیے نکلے۔ جب ہم مسجد میں آئے تو دو رکعتیں پڑھیں۔ اتنے میں جماعت کھڑی ہوگئی۔ سنتوں اور اقامت کے درمیان بالکل معمولی فاصلہ تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ روایت ضعیف ہے، بشرط صحت اس حدیث میں ”دن“ سے ”شرعی دن“ مراد ہوگا جو طلوع فجر سے شروع ہوتا ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا مقصود یہ ہے کہ سحری طلوع فجر کے بالکل قریب کھانی چاہیے تاکہ سحری کے مقاصد مکمل طور پر حاصل ہوں۔ بہت پہلے سحری کھانے سے روزہ نبھانا مشکل ہو جاتا ہے اور اگر سحری کے بعد نیند آگئی تو تہجد تو ایک طرف، فرض نماز بھی رہ جائے گی۔ (2) سَحْری، سحَْر سے ہے جس کے معنیٰ ہیں: رات کا آخری حصہ لہٰذا سحری ہے ہی وہ جو رات کے آخری حصے یعنی طلوع فجر سے عین پہلے ہو، زیادہ دیر پہلے کھانا عام کھانا ہوگا، سحری نہ ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
زر بن حبیش کہتے ہیں: میں نے حذیفہ ؓ کے ساتھ سحری کھائی، پھر ہم نماز کے لیے نکلے، تو جب ہم مسجد پہنچے تو دو رکعت سنت پڑھی ہی تھی کہ نماز شروع ہو گئی، اور ان دونوں کے درمیان ذرا سا ہی وقفہ رہا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Zirr bin Hubaish said: “I had Sahar with Hudhaifah, then we went out to pray. When we came to the Masjid we prayed two Rak’ahs, then the Iqamah for prayer was said, and there was only a short time between them.” (Sahih)