باب: تاخیر سحری کی بابت حضرت عائشہ کی سند میں سلیمان بن مہران کے شاگردوں کا اختلاف اور ان کے لفظی اختلاف کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: Mentioning the Differences Reported from Sulaiman Bin mihran in the Hadith of 'Aishah about delaying Sahur, and the different wordings)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2158.
حضرت ابو عطیہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے عرض کیا: ہم میں نبیﷺ کے دو صحابی موجود ہیں۔ ان میں سے ایک روزہ جلدی (آفتاب غروب ہوتے ہی) کھولتے ہیں اور سحری تاخیر سے (آخر وقت میں) کھاتے ہیں اور دوسرے صحابی (احتیاطاً) افطار دیر سے کرتے ہیں اور سحری جلدی کھا لیتے ہیں۔ وہ فرمانے لگیں: ان میں سے افطار اول وقت اور سحری آخر وقت کرنے والا کون ہے؟ میں نے کہا: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ۔ انہوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ کا معمول بھی یہی تھا۔
تشریح:
دوسرے صحابی حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ تھے، وہ احتیاطاً افطار میں دیر اور سحری میں جلدی فرماتے تھے، مگر احتیاط اتنی لمبی نہیں چاہیے کہ مسنون عمل میں تبدیلی آجائے، احتیاط تو چند منٹ کی ہوتی ہے، البتہ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ سورج غروب ہونے کا یقین کیے بغیر جلدی روزہ کھول لیا جائے یا صبح کی اذان کے دوران میں بھی سحری کھانے کی عادت ڈال لی جائے۔ کیونکہ اس طرح روزہ ضائع ہو سکتا ہے۔ بعض جلد باز حضرات غلط سلط کلینڈروں کو دیکھ کر سیکنڈوں کے حساب سے روزہ کھولتے ہیں، حالانکہ ضروری ہے کہ کلینڈر محکمہ موسمیات اور صدگاہوں کے ماہرین کا تصدیق شدہ ہو یا پھر کلینڈر کو سورج دیکھ کر مصدقہ بنا لیا جائے۔ کلینڈروں میں دوسرے شہروں کے اوقات میں فرق یکساں نہیں ہوتا، مثلاً: لاہور سے فیصل آباد کا فرق کسی کلینڈر میں دس منٹ، کسی میں نو، کسی میں آٹھ، کسی میں چھ، کسی میں پانچ منٹ لکھا ہوتا ہے، لہٰذا کلینڈر کی رو سے روزہ افطار کرنے والے حضرات غیر معیاری کلینڈروں سے اپنا روزہ ضائع نہ کریں۔ جب تک غروب کا یقین نہ ہو، روزہ نہیں کھولنا چاہیے۔ یقین سے مراد آنکھوں سے سورج عین افق میں غروب ہوتا دیکھنا ہے، جبکہ مطلع صاف ہو۔ یا پھر سب سے آخری کلینڈر پر عمل کرنا ہے۔ اس طرح تین چار منٹ کی تاخیر سے اول وقت افطار گزر نہیں جائے گا۔ تاخیر (جو مکروہ ہے) سے مراد ستارے نظر آنے کا انتظار ہے جو یہودی کرتے ہیں نہ کہ غروب کے یقین کا انتظار۔ افسوس! کہ آج کل تو مقابلے میں اذانیں کہی جاتی ہیں کہ جلدی اذان کہو، کہیں فلاں مسجد کی اذان ہم سے پہلے یا ہمارے برابر نہ ہو جائے۔ اس طرح لوگوں کے روزے خراب کیے جاتے ہیں۔ جو یقینا گناہ ہے اور جلدی کے شوق میں کیا جاتا ہے۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2159
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2157
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2160
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
حضرت ابو عطیہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے عرض کیا: ہم میں نبیﷺ کے دو صحابی موجود ہیں۔ ان میں سے ایک روزہ جلدی (آفتاب غروب ہوتے ہی) کھولتے ہیں اور سحری تاخیر سے (آخر وقت میں) کھاتے ہیں اور دوسرے صحابی (احتیاطاً) افطار دیر سے کرتے ہیں اور سحری جلدی کھا لیتے ہیں۔ وہ فرمانے لگیں: ان میں سے افطار اول وقت اور سحری آخر وقت کرنے والا کون ہے؟ میں نے کہا: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ۔ انہوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ کا معمول بھی یہی تھا۔
حدیث حاشیہ:
دوسرے صحابی حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ تھے، وہ احتیاطاً افطار میں دیر اور سحری میں جلدی فرماتے تھے، مگر احتیاط اتنی لمبی نہیں چاہیے کہ مسنون عمل میں تبدیلی آجائے، احتیاط تو چند منٹ کی ہوتی ہے، البتہ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ سورج غروب ہونے کا یقین کیے بغیر جلدی روزہ کھول لیا جائے یا صبح کی اذان کے دوران میں بھی سحری کھانے کی عادت ڈال لی جائے۔ کیونکہ اس طرح روزہ ضائع ہو سکتا ہے۔ بعض جلد باز حضرات غلط سلط کلینڈروں کو دیکھ کر سیکنڈوں کے حساب سے روزہ کھولتے ہیں، حالانکہ ضروری ہے کہ کلینڈر محکمہ موسمیات اور صدگاہوں کے ماہرین کا تصدیق شدہ ہو یا پھر کلینڈر کو سورج دیکھ کر مصدقہ بنا لیا جائے۔ کلینڈروں میں دوسرے شہروں کے اوقات میں فرق یکساں نہیں ہوتا، مثلاً: لاہور سے فیصل آباد کا فرق کسی کلینڈر میں دس منٹ، کسی میں نو، کسی میں آٹھ، کسی میں چھ، کسی میں پانچ منٹ لکھا ہوتا ہے، لہٰذا کلینڈر کی رو سے روزہ افطار کرنے والے حضرات غیر معیاری کلینڈروں سے اپنا روزہ ضائع نہ کریں۔ جب تک غروب کا یقین نہ ہو، روزہ نہیں کھولنا چاہیے۔ یقین سے مراد آنکھوں سے سورج عین افق میں غروب ہوتا دیکھنا ہے، جبکہ مطلع صاف ہو۔ یا پھر سب سے آخری کلینڈر پر عمل کرنا ہے۔ اس طرح تین چار منٹ کی تاخیر سے اول وقت افطار گزر نہیں جائے گا۔ تاخیر (جو مکروہ ہے) سے مراد ستارے نظر آنے کا انتظار ہے جو یہودی کرتے ہیں نہ کہ غروب کے یقین کا انتظار۔ افسوس! کہ آج کل تو مقابلے میں اذانیں کہی جاتی ہیں کہ جلدی اذان کہو، کہیں فلاں مسجد کی اذان ہم سے پہلے یا ہمارے برابر نہ ہو جائے۔ اس طرح لوگوں کے روزے خراب کیے جاتے ہیں۔ جو یقینا گناہ ہے اور جلدی کے شوق میں کیا جاتا ہے۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوعطیہ وادعی ہمدانی کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ ؓ سے کہا: ہم میں نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے دو آدمی ہیں ان دونوں میں سے ایک افطار میں جلدی کرتا ہے، اور سحری میں تاخیر، اور دوسرا افطار میں تاخیر کرتا ہے، اور سحری میں جلدی، انہوں نے پوچھا: ان دونوں میں کون ہے جو افطار میں جلدی کرتا ہے، اور سحری میں تاخیر؟ میں نے کہا: وہ عبداللہ بن مسعود ؓ ہیں، اس پر انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ اسی طرح کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu ‘Atiyyah said: “I said to 'Aishah (RA) : ‘Among us there are two of the Companions of the Prophet (ﷺ), One of whom hastens Iftar and delays Sahur and the other delays Iftar and hastens Sahur.’ She said: ‘Which of them is the one who hastens Iftar and delays Sahur? I Said: “Abdullah bin Mas’ud.’ She Said: ‘That is what the Messenger of Allah (ﷺ) used to do.” (Sahih)