Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: Fasting on the day of Doubt)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2188.
حضرت صلہ سے مروی ہے کہ ہم حضرت عمار ؓ کے پاس تھے تو ان کے پاس بھنی ہوئی (سالم) بکری لائی گئی۔ انہوں نے (حاضرین سے) فرمایا: کھاؤ۔ لیکن کچھ لوگ ایک طرف ہوگئے اور کہنے لگے: ہمارا روزہ ہے۔ حضرت عمار ؓ نے فرمایا: جس نے شک والے دن کا روزہ رکھا اس نے حضرت ابوالقاسمﷺ کی نافرمانی کی۔
تشریح:
(1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے، محققین کی بحث سے راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل ہو جاتی ہے۔ واللہ أعلم! مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۱/ ۳۱-۳۸) (2) ’’شک والے دن‘‘ سے مراد شعبان کی تیس تاریخ ہے کیونکہ اس دن امکان ہوتا ہے کہ شاید رمضان المبارک کی پہلی تاریخ ہو۔ بعض لوگ اس دن چاند نظر آئے بغیر احتیاطاً روزہ رکھ لیتے ہیں کہ شاید چاند طلوع ہوگیا ہو، مگر یہ احتیاط شریعت حقہ کی نافرمانی ہے۔ (مزید دیکھئے، حدیث: ۲۱۱۸- ۲۱۲۷) (3) ”ابوالقاسم“ رسول اللہﷺ کی کنیت ہے۔ کبھی کبھار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کو نام کے بجائے اس کنیت سے پکارتے تھے۔ عموماً رسول اللہ اور نبی اللہﷺ وغیرہ جلیل القدر الفاظ سے یاد کرتے تھے۔ (4) ”اس نے ابوالقاسمﷺ کی نافرمانی کی۔“ جس روایت میں صحابی اس قسم کے الفاظ کہے وہ حکماً مرفوع ہوتی ہے
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2189
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2187
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2190
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
حضرت صلہ سے مروی ہے کہ ہم حضرت عمار ؓ کے پاس تھے تو ان کے پاس بھنی ہوئی (سالم) بکری لائی گئی۔ انہوں نے (حاضرین سے) فرمایا: کھاؤ۔ لیکن کچھ لوگ ایک طرف ہوگئے اور کہنے لگے: ہمارا روزہ ہے۔ حضرت عمار ؓ نے فرمایا: جس نے شک والے دن کا روزہ رکھا اس نے حضرت ابوالقاسمﷺ کی نافرمانی کی۔
حدیث حاشیہ:
(1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے، محققین کی بحث سے راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل ہو جاتی ہے۔ واللہ أعلم! مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۱/ ۳۱-۳۸) (2) ’’شک والے دن‘‘ سے مراد شعبان کی تیس تاریخ ہے کیونکہ اس دن امکان ہوتا ہے کہ شاید رمضان المبارک کی پہلی تاریخ ہو۔ بعض لوگ اس دن چاند نظر آئے بغیر احتیاطاً روزہ رکھ لیتے ہیں کہ شاید چاند طلوع ہوگیا ہو، مگر یہ احتیاط شریعت حقہ کی نافرمانی ہے۔ (مزید دیکھئے، حدیث: ۲۱۱۸- ۲۱۲۷) (3) ”ابوالقاسم“ رسول اللہﷺ کی کنیت ہے۔ کبھی کبھار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کو نام کے بجائے اس کنیت سے پکارتے تھے۔ عموماً رسول اللہ اور نبی اللہﷺ وغیرہ جلیل القدر الفاظ سے یاد کرتے تھے۔ (4) ”اس نے ابوالقاسمﷺ کی نافرمانی کی۔“ جس روایت میں صحابی اس قسم کے الفاظ کہے وہ حکماً مرفوع ہوتی ہے
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
صلہ بن زفر کہتے ہیں: ہم عمار رضی الله عنہ کے پاس تھے کہ ایک بھنی ہوئی بکری لائی گئی، تو انہوں نے کہا: آؤ تم لوگ بھی کھاؤ، تو لوگوں میں سے ایک شخص الگ ہٹ گیا، اور اس نے کہا: میں روزے سے ہوں، تو عمار ؓ نے کہا: جس نے شک والے دن روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Simak said: “I entered upon ‘Ikrimah on the day concerning which there was doubt as to whether it was Ramadan or Sha’ban, and he was eating bread, vegetables and milk. He said: ‘Come and eat.’ I said: ‘I am fasting.’ He adjured me by Allah to break my fast. I said Subhan-Allah twice. When I saw that he was insisting, I went forward and said: ‘Give me what you have.’ He said: ‘I heard Ibn ‘Abbas say: The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Fast when you see it (the crescent) and stop fasting when you see it, and if clouds or darkness prevent you from seeing it, then complete the number of days of Sha’ban, and do not fast ahead of the month, and do not join Ramadhan to a day of Sha’ban.”(Sahih)