باب: رووزے کی نیت اور اس بارے میں حضرت عائشہؓ کی حدیث (کے بیان کرنے) میں طلحہ بن یحیٰ بن طلحہ کے شاگردوں کا اختلاف
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: The intention to fast, and the differences reported from Talhah bin Yahya in the narration of 'Aishah about it)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2323.
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہﷺ نے میرے پاس چکر لگایا اور فرمایا: ”تمہارے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟“ میں نے عرض کیا: میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: ”پھر میں روزہ رکھ لیتا ہوں۔“ پھر (کسی دن) دوبارہ تشریف لائے۔ اتفاقاً ہمارے پاس حیس کا تحفہ آیا تھا۔ میں آپ کے پاس لائی تو آپ نے کھا لیا۔ مجھے اس پر تعجب ہوا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ تشریف لائے تو آپ کا روزہ تھا، پھر آپ نے حیس کھا لیا؟ آپ نے فرمایا: ”عائشہ! ہاں۔ رمضان یا قضائے رمضان کے علاوہ نفل روزے رکھنے والے کی مثال تو اس شخص کی طرح ہے جس نے اپنے مال کا صدقہ نکالا تو جس قدر چاہا خرچ کر دیا اور اس کا ثواب حاصل کرلیا اور جتنا چاہا کنجوسی کرتے ہوئے رکھ لیا۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2324
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2322
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2325
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
تمہید باب
طلحہ کے بعض شاگرد ان کا استاد مجاہد بتاتے ہیں اور بعض عائشہ بنت طلحہ کو، معلوم ہوتا ہے کہ دونوں صحیح ہیں جیسا کہ روایت: 2330میں صراحت ہے۔ غرض طلحۃ عن مجاہد عن عائشۃؓاور طلحۃ عن عائشۃ بنت طلحۃ عن عائشۃؓاسی طرح عن عائشۃ بنت طلحۃ ومجاہد کلاھما عن عائشۃؓاور طلحۃ عن مجاہد وام کلثوم: ان رسول اللہﷺمرسلا، یہ سب طرق صحیح، ان میں اختلاف اور تضاد نہیں
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہﷺ نے میرے پاس چکر لگایا اور فرمایا: ”تمہارے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟“ میں نے عرض کیا: میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: ”پھر میں روزہ رکھ لیتا ہوں۔“ پھر (کسی دن) دوبارہ تشریف لائے۔ اتفاقاً ہمارے پاس حیس کا تحفہ آیا تھا۔ میں آپ کے پاس لائی تو آپ نے کھا لیا۔ مجھے اس پر تعجب ہوا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ تشریف لائے تو آپ کا روزہ تھا، پھر آپ نے حیس کھا لیا؟ آپ نے فرمایا: ”عائشہ! ہاں۔ رمضان یا قضائے رمضان کے علاوہ نفل روزے رکھنے والے کی مثال تو اس شخص کی طرح ہے جس نے اپنے مال کا صدقہ نکالا تو جس قدر چاہا خرچ کر دیا اور اس کا ثواب حاصل کرلیا اور جتنا چاہا کنجوسی کرتے ہوئے رکھ لیا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ گھوم کر میرے پاس آئے اور پوچھا: ”تمہارے پاس کوئی چیز (کھانے کی) ہے؟“ میں نے عرض کیا، میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر تو میں روزہ رکھ لیتا ہوں“، پھر ایک اور بار میرے پاس آئے، اس وقت ہمارے پاس حیس ہدیہ میں آیا ہوا تھا، تو میں اسے لے کر آپ کے پاس حاضر ہوئی تو آپ نے اسے کھایا، تو مجھے اس بات سے حیرت ہوئی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ہمارے پاس آئے تو روزہ سے تھے پھر بھی آپ ﷺ نے حیس کھا لیا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں عائشہ! جس نے کوئی روزہ رکھا لیکن وہ روزہ رمضان کا یا رمضان کی قضاء کا نہ ہو، یا نفلی روزہ ہو تو وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے اپنے مال میں سے (نفلی) صدقہ نکالا، پھر اس میں سے جتنا چاہا سخاوت کر کے دے دیا اور جو بچ رہا بخیلی کر کے اسے روک لیا۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس سے نفلی روزے کے توڑنے کا جواز ثابت ہوا، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ نفلی روزہ توڑ دینے پر اس کی قضاء واجب نہیں، جمہور کا مسلک یہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Aishah (RA) said: “The Messenger of Allah (ﷺ) passed by my door. He said: ‘Do you have anything (to eat)?’ I said: ‘I do not have anything.’ He said: ‘Then I am fasting.” She said: “Then he passed by my door a second time and we had been given some Hais. I brought it to him and he ate, and I was surprised. I said: ‘Messenger of Allah (ﷺ), you entered upon me and you were fasting, then you ate Hais.’ He said: ‘Yes, 'Aishah (RA). The one who observes a fast other than in Ramadan, or making up a missed Ramadan fast, is like a man who allocated some of his wealth to give in charity; if he wishes he may go ahead and give it, and if he wishes he may keep it.” (Hasan)