باب: دو تہائی دنوں کے روزے اور اس بارے میں وارد حدیث کے بیان میں راویوں کے اختلاف کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: Fasting for two thirds of one's lifetime)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2385.
نبیﷺ کے ایک صحابی ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ سے کہا گیا کہ ایک آدمی ہمیشہ روزے رکھتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”کاش وہ کبھی کھانا نہ کھانا (اور مر جاتا)۔“ لوگوں نے عرض کیا: دو تہائی دنوں کے روزے کیسے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”۔یہ بھی بہت زیادہ ہیں۔“ انھوں نے کہا: نصف دنوں کے روزے؟ آپ نے فرمایا: ”۔یہ بھی زیادہ ہی ہیں۔“ پھر فرمایا: ”میں تمھیں وہ روزے نہ بتاؤں جو سینے کا کینہ (دل کے مفاسد) دور کرنے کے لیے کافی ہیں؟ ہر ماہ میں تین دن کے روزے۔“
تشریح:
(1) ”کاش وہ کبھی نہ کھاتا۔“ یہ اظہار ناراضی ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ یہ تو مرنے والی بات ہے۔ اس سے تو بہتر تھا کہ کبھی بھی کھانا نہ کھاتا اور جلدی مر جاتا۔ ظاہر الفاظ مقصود نہیں صرف ڈانٹنا مقصد ہے کہ ہمیشہ روزہ رکھنا منع ہے۔ (2) ”بہت زیادہ ہیں۔“ گویا ہر مہینے دو تہائی (یعنی بیس) دنوں کے روزے رکھنا بھی اولیٰ نہیں کہ یہ بھی صیام داؤد علیہ السلام سے زیادتی ہے۔ اگرچہ یہ جائز ہیں مگر افضل پھر بھی نہیں۔ (3) ”یہ بھی زیادہ ہیں۔“ کیونکہ یہ نفل روزوں کا آخری درجہ ہے، البتہ منع نہیں۔ لیکن چونکہ وہ شخص پہلے ہی زیادہ روزے رکھتا تھا، لہٰذا آپ نے اس کے لیے یہ بھی مناسب نہ سمجھے تاکہ اس کا تشدد ختم ہو۔ (4) مہینے میں تین روزے بہترین ہیں کیونکہ ان سے روزے کا مقصد بھی بخوبی پورا ہوتا ہے، یعنی دل کی اصلاح ہو جاتی ہے اور حقوق العباد کی ادائیگی میں خلل بھی واقع نہیں ہوتا اور انسان جسمانی کمزوری سے بھی محفوظ رہتا ہے، نیز تین کا ثواب تیس، یعنی پورے مہینے کے برابر ہے، لہٰذا اسی پر عمل افضل ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2386
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2384
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2387
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
تمہید باب
اختلاف یوں ہے کہ بعض راوی اس حدیث کو متصل بیان کرتے ہیں اور بعض مرسل، یعنی صحابہ کا ذکر نہیں کرتے۔ عمرو بن شرحبیل صحابی نہیں ہیں۔ پہلی روایت متصل ہے، اگرچہ صحابی نامعلوم ہے اور صحابی کا نامعلوم ہونا مضر نہیں ہوتا۔ دوسری روایت مرسل ہے، اس میں صحابی کا ذکر نہیں۔
نبیﷺ کے ایک صحابی ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ سے کہا گیا کہ ایک آدمی ہمیشہ روزے رکھتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”کاش وہ کبھی کھانا نہ کھانا (اور مر جاتا)۔“ لوگوں نے عرض کیا: دو تہائی دنوں کے روزے کیسے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”۔یہ بھی بہت زیادہ ہیں۔“ انھوں نے کہا: نصف دنوں کے روزے؟ آپ نے فرمایا: ”۔یہ بھی زیادہ ہی ہیں۔“ پھر فرمایا: ”میں تمھیں وہ روزے نہ بتاؤں جو سینے کا کینہ (دل کے مفاسد) دور کرنے کے لیے کافی ہیں؟ ہر ماہ میں تین دن کے روزے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”کاش وہ کبھی نہ کھاتا۔“ یہ اظہار ناراضی ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ یہ تو مرنے والی بات ہے۔ اس سے تو بہتر تھا کہ کبھی بھی کھانا نہ کھاتا اور جلدی مر جاتا۔ ظاہر الفاظ مقصود نہیں صرف ڈانٹنا مقصد ہے کہ ہمیشہ روزہ رکھنا منع ہے۔ (2) ”بہت زیادہ ہیں۔“ گویا ہر مہینے دو تہائی (یعنی بیس) دنوں کے روزے رکھنا بھی اولیٰ نہیں کہ یہ بھی صیام داؤد علیہ السلام سے زیادتی ہے۔ اگرچہ یہ جائز ہیں مگر افضل پھر بھی نہیں۔ (3) ”یہ بھی زیادہ ہیں۔“ کیونکہ یہ نفل روزوں کا آخری درجہ ہے، البتہ منع نہیں۔ لیکن چونکہ وہ شخص پہلے ہی زیادہ روزے رکھتا تھا، لہٰذا آپ نے اس کے لیے یہ بھی مناسب نہ سمجھے تاکہ اس کا تشدد ختم ہو۔ (4) مہینے میں تین روزے بہترین ہیں کیونکہ ان سے روزے کا مقصد بھی بخوبی پورا ہوتا ہے، یعنی دل کی اصلاح ہو جاتی ہے اور حقوق العباد کی ادائیگی میں خلل بھی واقع نہیں ہوتا اور انسان جسمانی کمزوری سے بھی محفوظ رہتا ہے، نیز تین کا ثواب تیس، یعنی پورے مہینے کے برابر ہے، لہٰذا اسی پر عمل افضل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمرو بن شرجبیل ایک صحابی رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا گیا: ایک آدمی ہے جو ہمیشہ روزے رکھتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”میری خواہش ہے کہ وہ کبھی کھاتا ہی نہیں“،۱؎ لوگوں نے عرض کیا: دو تہائی ایام رکھے تو؟۲؎ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ بھی زیادہ ہے“، لوگوں نے عرض کیا: اور آدھا رکھے تو؟ ۳؎ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ بھی زیادہ ہے“، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں اتنے روزوں نہ بتاؤں جو سینے کی سوزش کو ختم کر دیں، یہ ہر مہینے کے تین دن کے روزے ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی نہ دن میں نہ رات میں یہاں تک کہ بھوک سے مر جائے، اس سے مقصود اس کے اس عمل پر اپنی ناگواری کا اظہار ہے اور یہ بتانا ہے کہ یہ ایک ایسا مذموم عمل ہے کہ اس کے لیے بھوک سے مر جانے کی تمنا کی جائے۔ ۲؎ : یعنی دو دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے تو کیا حکم ہے؟ ۳؎ : یعنی ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے تو کیا حکم ہے؟
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from ‘Amr bin Shurahbil that a man from among the Companions of the Prophet said: “It was said to the Prophet (ﷺ) that a man fasted for the rest of his life. He said: ‘I wish that he had never eaten.’ They said: ‘Two-thirds (of a lifetime)?’ He said: ‘That is too much.’ Theysaid ‘Half?’ He said: ‘That is too much.’ Then he said: ‘Shall I not tell you of that which will take away impurity from the heart? Fasting three days each month.”(Sahih)