باب: ایک دن روزہ رکھنا اورایک د ن افطار کرنااوراس بارے میں حضرت عبد اللہ بن عمروؓ کی حدیث بیان کرنے والوں کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: Fasting one day, and not fasting one day, and the difference in the wording of the transmitters Of The Narration Of 'Abdullah Bin 'Amr About It)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2389.
حضرت مجاہد بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے مجھ سے فرمایا کہ میرے والد نے ایک صاحب رتبہ (عالی نسب) خاتون سے میرا نکاح کر دیا، پھر وہ (اکثر) اس کے پاس آکر اس کے خاوند کے (یعنی میرے) بارے میں پوچھتے تو وہ خاتون کہتی: بڑے اچھے آدمی ہیں جو کبھی میرے بستر پر نہیں آئے اور جب سے میں آئی ہوں، کبھی میرا پہلو تلاش نہیں کیا۔ میرے والد نے یہ بات نبیﷺ کے گوش گزار کی تو آپ نے فرمایا: ”اسے لے کر میرے پاس آنا۔“ میں ان کے ساتھ آپﷺ کے پاس حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: ”تم روزے (نفل) کیسے رکھتے ہو؟“ میں نے عرض کیا: ہر روز۔ آپ نے فرمایا: ”ہر ہفتے سے تین دن روزے رکھو۔“ میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”دو دن روزہ رکھو اور ایک دن ناغہ کرو۔“ میں نے عرض کیا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”داؤد ؑ کی طرح روزے رکھو جو افضل ترین روزے ہیں۔ ایک دن روزہ، ایک دن ناغہ۔“
تشریح:
(1) اس روایت میں سوال اور جواب کی ترتیب صحیح نہیں۔ کسی راوی سے غلطی ہوگئی ہے۔ اس نے یوں مخل اختصار کر دیا ہے۔ آئندہ روایات سے صحیح ترتیب معلوم ہو رہی ہے۔ (2) ”پہلو تلاش نہیں کیا۔“ یعنی کبھی خاوند بیوی والا تعلق قائم نہیں کیا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ انتہائی متقی اور پرہیز گار تھے، اس لیے توجہ بیوی کی طرف نہ گئی۔ والد محترم نے خود توجہ دلانے کے بجائے رسول اللہﷺ سے رجوع کیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2390
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2388
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2391
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
تمہید باب
یہاں سند میں کسی اختلاف کا بیان مقصود نہیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ روایانِ حدیث میں بعض الفاظ کے بیان میں کچھ اختلاف ہے، جیسے بواسطہ مجاہد مروی روایات میں ایک دن روزہ رکھنا اور دوسرے دن چھوڑنے کو افضل الصیام کہا گیا، ابو سلمہ کے طریق سے منقول روایت میں اس طرح کے روزے کو نصف الدھر کے روزے قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ ابن المسیب اور ابو سلمہ کی روایت میں اعدل الصیام کے الفاظ منقول ہیں۔ غرض مآل ایک ہی ہے۔ متن حدیث پر اس سے کوئی زد نہیں آتی، مزید دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: 21/ 303)
حضرت مجاہد بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے مجھ سے فرمایا کہ میرے والد نے ایک صاحب رتبہ (عالی نسب) خاتون سے میرا نکاح کر دیا، پھر وہ (اکثر) اس کے پاس آکر اس کے خاوند کے (یعنی میرے) بارے میں پوچھتے تو وہ خاتون کہتی: بڑے اچھے آدمی ہیں جو کبھی میرے بستر پر نہیں آئے اور جب سے میں آئی ہوں، کبھی میرا پہلو تلاش نہیں کیا۔ میرے والد نے یہ بات نبیﷺ کے گوش گزار کی تو آپ نے فرمایا: ”اسے لے کر میرے پاس آنا۔“ میں ان کے ساتھ آپﷺ کے پاس حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: ”تم روزے (نفل) کیسے رکھتے ہو؟“ میں نے عرض کیا: ہر روز۔ آپ نے فرمایا: ”ہر ہفتے سے تین دن روزے رکھو۔“ میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”دو دن روزہ رکھو اور ایک دن ناغہ کرو۔“ میں نے عرض کیا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”داؤد ؑ کی طرح روزے رکھو جو افضل ترین روزے ہیں۔ ایک دن روزہ، ایک دن ناغہ۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت میں سوال اور جواب کی ترتیب صحیح نہیں۔ کسی راوی سے غلطی ہوگئی ہے۔ اس نے یوں مخل اختصار کر دیا ہے۔ آئندہ روایات سے صحیح ترتیب معلوم ہو رہی ہے۔ (2) ”پہلو تلاش نہیں کیا۔“ یعنی کبھی خاوند بیوی والا تعلق قائم نہیں کیا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ انتہائی متقی اور پرہیز گار تھے، اس لیے توجہ بیوی کی طرف نہ گئی۔ والد محترم نے خود توجہ دلانے کے بجائے رسول اللہﷺ سے رجوع کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجاہد کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن عمرو ؓ نے کہا: میرے والد نے میری شادی ایک اچھے خاندان والی عورت سے کر دی، چنانچہ وہ اس کے پاس آتے، اور اس سے اس کے شوہر کے بارے میں پوچھتے، تو (ایک دن) اس نے کہا: یہ بہترین آدمی ہیں ایسے آدمی ہیں کہ جب سے میں ان کے پاس آئی ہوں، انہوں نے نہ ہمارا بستر روندا ہے اور نہ ہم سے بغل گیر ہوئے ہیں، عمرو بن العاص ؓ نے اس کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے میرے پاس لے کر آؤ“، میں والد کے ساتھ آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوا، تو آپ نے پوچھا: ”تم کس طرح روزے رکھتے ہو؟“ میں نے عرض کیا: ہر روز، آپ نے فرمایا: ”ہفتہ میں تین دن روزے رکھا کرو“، میں نے کہا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا: ”اچھا دو دن روزہ رکھا کرو اور ایک دن افطار کرو“، میں نے کہا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اچھا سب سے افضل روزے رکھے کرو جو داود ؑ کے روزے ہیں، ایک دن روزہ اور ایک دن افطار۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Muhajid said: “Abdullah bin ‘Amr said to me. My father got me married to a woman from a noble family, and he used to come to her and ask her about her husband. She said: What a wonderful man he is! He never comes to my bed, and he has never approached me since he married me. He mentioned that to the Prophet (ﷺ) and he said: Bring him to me. So he brought him with him. (The Prophet (ﷺ)) said: How do you fast? I said: “Every day.” He said: “Fast three days of every month.” I said: “I am able to do better than that.” He said: “Fast for two days, and break your fast for one day.” He said: “I am able better than that”. He said: Observe the best of fasts, the fast Dawud ؑ: Fasting for one day and breaking the fast for one day.” (Sahih)