باب: ایک دن روزہ رکھنا اورایک د ن افطار کرنااوراس بارے میں حضرت عبد اللہ بن عمروؓ کی حدیث بیان کرنے والوں کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: Fasting one day, and not fasting one day, and the difference in the wording of the transmitters Of The Narration Of 'Abdullah Bin 'Amr About It)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2393.
حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے، میں حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کے پاس گیا اور کہا: چچا جان! مجھے وہ بات بیان فرمائیے جو رسول اللہﷺ نے آپ کو ارشاد فرمائی تھی۔ وہ فرمانے لگے: اے بھتیجے! میں نے یہ عزم کیا تھا کہ میں عبادت میں سخت محنرو کروں گا حتیٰ کہ میں نے کہا: میں ہمیشہ روزے رکھوں گا اور ایک دن رات میں پورا قرآن مجید ختم کیا کروں گا۔ رسول اللہﷺ نے (کسی سے) یہ بات سن لی تو آپ میرے پاس تشریف لائے حتیٰ کہ میرے گھر میں داخل ہوگئے اور فرمانے لگے: ”مجھے پتا چلا ہے کہ تو نے کہا ہے: میں ہمیشہ روزہ رکھا کروں گا اور (ہر روز) پورا قرآن (نماز میں) پڑھا کروں گا۔“ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! بلا شبہ میں نے یہ بات کہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”ایسے نہ کرنا۔ ہر مہینے میں تین روزے رکھ لیا کر۔“ میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر ہفتے میں دو دن، یعنی سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھ لیا کر۔“ میں نے کہا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر حضرت داؤد ؑ جیسے روزے رکھا کر کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین (اور مناسب ترین) روزے ہیں۔ ایک دن روزہ اور ایک دن ناغہ اور حضرت داؤد ؑ جب وعدہ فرما لیتے تھے تو خلاف ورزی نہ کرتے تھے اور جب دشمن سے مقابلہ ہوتا تو بھاگتے نہ تھے۔“
تشریح:
”بھاگتے نہ تھے۔“ یہ دو اضافی صفات بیان فرمائیں جن کے ساتھ حضرت داؤد علیہ السلام متصف تھے۔ باوجود اس قدر روزے دار ہونے کے بہت زیادہ قوت کے مالک تھے۔ ﴿وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُدَ ذَا الأيْدِ﴾(ص ۳۸: ۱۷)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2394
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2392
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2395
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
تمہید باب
یہاں سند میں کسی اختلاف کا بیان مقصود نہیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ روایانِ حدیث میں بعض الفاظ کے بیان میں کچھ اختلاف ہے، جیسے بواسطہ مجاہد مروی روایات میں ایک دن روزہ رکھنا اور دوسرے دن چھوڑنے کو افضل الصیام کہا گیا، ابو سلمہ کے طریق سے منقول روایت میں اس طرح کے روزے کو نصف الدھر کے روزے قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ ابن المسیب اور ابو سلمہ کی روایت میں اعدل الصیام کے الفاظ منقول ہیں۔ غرض مآل ایک ہی ہے۔ متن حدیث پر اس سے کوئی زد نہیں آتی، مزید دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: 21/ 303)
حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے، میں حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کے پاس گیا اور کہا: چچا جان! مجھے وہ بات بیان فرمائیے جو رسول اللہﷺ نے آپ کو ارشاد فرمائی تھی۔ وہ فرمانے لگے: اے بھتیجے! میں نے یہ عزم کیا تھا کہ میں عبادت میں سخت محنرو کروں گا حتیٰ کہ میں نے کہا: میں ہمیشہ روزے رکھوں گا اور ایک دن رات میں پورا قرآن مجید ختم کیا کروں گا۔ رسول اللہﷺ نے (کسی سے) یہ بات سن لی تو آپ میرے پاس تشریف لائے حتیٰ کہ میرے گھر میں داخل ہوگئے اور فرمانے لگے: ”مجھے پتا چلا ہے کہ تو نے کہا ہے: میں ہمیشہ روزہ رکھا کروں گا اور (ہر روز) پورا قرآن (نماز میں) پڑھا کروں گا۔“ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! بلا شبہ میں نے یہ بات کہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”ایسے نہ کرنا۔ ہر مہینے میں تین روزے رکھ لیا کر۔“ میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر ہفتے میں دو دن، یعنی سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھ لیا کر۔“ میں نے کہا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر حضرت داؤد ؑ جیسے روزے رکھا کر کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین (اور مناسب ترین) روزے ہیں۔ ایک دن روزہ اور ایک دن ناغہ اور حضرت داؤد ؑ جب وعدہ فرما لیتے تھے تو خلاف ورزی نہ کرتے تھے اور جب دشمن سے مقابلہ ہوتا تو بھاگتے نہ تھے۔“
حدیث حاشیہ:
”بھاگتے نہ تھے۔“ یہ دو اضافی صفات بیان فرمائیں جن کے ساتھ حضرت داؤد علیہ السلام متصف تھے۔ باوجود اس قدر روزے دار ہونے کے بہت زیادہ قوت کے مالک تھے۔ ﴿وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُدَ ذَا الأيْدِ﴾(ص ۳۸: ۱۷)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمرو ؓ کے پاس آیا۔ میں نے عرض کیا: چچا جان! رسول اللہ ﷺ نے آپ سے جو کہا تھا اسے مجھ سے بیان کیجئے۔ انہوں نے کہا: بھتیجے! میں نے پختہ عزم کر لیا تھا کہ میں اللہ کی عبادت کے لیے بھرپور کوشش کروں گا یہاں تک کہ میں نے کہہ دیا کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، اور ہر روز دن و رات قرآن پڑھا کروں گا، رسول اللہ ﷺ نے اسے سنا تو میرے پاس تشریف لائے یہاں تک کہ گھر کے اندر میرے پاس آئے، پھر آپ نے فرمایا: ”مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تم نے کہا ہے کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور قرآن پڑھوں گا؟“ میں نے عرض کیا: ہاں اللہ کے رسول! میں نے ایسا کہا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”ایسا مت کرو (بلکہ) ہر مہینے تین دن روزہ رکھ لیا کرو“، میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا: ”ہر ہفتہ سے دو دن دوشنبہ (پیر) اور جمعرات کو روزہ رکھ لیا کرو“، میں نے عرض کیا: میں اس سے بھی زیادہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا: ”داود ؑ کا روزہ رکھا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ سب سے زیادہ بہتر اور مناسب روزہ ہے، وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے، اور وہ جب وعدہ کر لیتے تو وعدہ خلافی نہیں کرتے تھے، اور جب دشمن سے مڈ بھیڑ ہوتی تھی تو بھاگتے نہیں تھے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Salamah bin ‘Abdur-Rahman said: “I entered upon ‘Abdullah bin ‘Amr and said: uncle, tell me what the Messenger of Allah (ﷺ) said to you. He said: son of my brother, I had resolved to strive very hard until I said: I will fast for the rest of my life and I will read the whole Qur’an every day and The Messenger of Allah (ﷺ) heard about that, and came in to me in my house, and said: I have heard that you said, I will fast for a lifetime and will read the Qur’an. I said: I did say that, Messenger of Allah. He said: Do not do that. Fast three days of each month. I said: I am able to do more than that. He said: fast two days of each week, Monday and Thursday. I said: I am able to do more than that. He said: Observe the fast of Dawud ؑ, for it is the best kind of fasting before Allah; one day fasting, and one day not fasting. And when he made a promise he did not break it, and when he met (the enemy in battle) he did not flee.” (Sahih)