Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: Fasting Two days Of The Month)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2434.
حضرت ابوعقرب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نبیﷺ سے نفل روزے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”مہینے میں ایک روزہ رکھ لیا کر۔“ میں نے مزید اجازت مانگی اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! میں اپنے آپ کو طاقتور محسوس کرتا ہوں۔ آپ نے مزید اجازت دے دی۔ اور فرمایا: ”ہر مہینے دو روزے رکھ لیا کر۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان! میں اپنے آپ کو طاقتور سمجھتا ہوں۔ رسول اللہﷺ نے (میری بات دوہراتے ہوئے) فرمایا: ”میں اپنے آپ کو طاقت ور سمجھتا ہوں۔ میں اپنے آپ کو طاقت ور سمجھتا ہوں۔“ امید نہیں تھی کہ آپ مزید اجازت فرمائیں گے۔ جب میں نے اصرار کیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”ہر مہینے تین روزے رکھ لیا کر۔“
تشریح:
گزشتہ تمام روایات سے معلوم ہوا نفل روزے کم سے کم رکھے جائیں تاکہ پابندی ہو سکے اور حقوق العباد اور معاش میں بھی خلل واقع نہ ہو۔ مہینے میں تین روزے کافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے پورے مہینے کے روزوں کا ثواب عطا فرما دے گا۔ اس سے زیادہ روزے رکھنا مستحسن نہیں، جائز ہیں۔ نفل روزوں میں اپنی سہولت کا خیال رکھے۔ تینوں روزے اکٹھے رکھنا ضروری نہیں۔ ہر دس دن میں ایک روزہ رکھ لے۔ یا سوموار اور جمعرات کے حساب سے پورے کرے۔ مشقت نہ ہو تو چاندنی راتوں والے دنوں کے تین روزے اکٹھے رکھنا افضل ہے۔ مسلسل روزے رکھنا منع ہے۔ شعبان کے آخری ایک دو دن، عیدین اور ایام تشریق کے روزے رکھنا بھی منع ہے۔ صرف جمعے کے دن روزہ رکھنے سے روکا گیا ہے۔ اسی طرح ہفتے کے دن روزہ رکھنے سے بھی روکا گیا ہے۔ آگے یا پیچھے کوئی اور روزہ بھی رکھا جائے۔ مخصوص روزے، مثلاً: شوال کے چھ روزے اکٹھے رکھے جا سکتے ہیں، ذوالحجہ کے نو روزے اکٹھے رکھے جائیں گے، اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ سارے سال میں ایک ہی دفعہ آتے ہیں۔ سفر میں مشقت نہ ہو تو رمضان المبارک کے روزے رکھ لینا بہتر ہے اور اگر مشقت ہو یا دوسروں کے لیے بوجھ بنے تو نہ رکھنا بہتر ہے۔ جہاد کے دوران میں بھی اگر لڑائی ہو رہی ہے، یا عنقریب ہونے والی ہے تو قوت کے حصول کے لیے رمضان المبارک کے روزے نہ رکھنا افضل ہے، بعد میں روزے پورے کر لے۔ اگر لڑائی دو رہے تو روزے رکھنا بہتر ہے۔ دوران سفر میں نفل روزے رکھنا یا نہ رکھنا مرضی پر موقوف ہے مگر دوسروں کے لیے بوجھ نہ بنے۔ مشقت محسوس ہونے پر یا مہمان کی آمد پر یا انتہائی پسندیدہ کھانا میسر آنے پر نفل روزہ ختم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ بعد میں نفل روزے کی قضا ادا کی جا سکتی ہے، ضروری نہیں۔ نفل روزہ زوال سے پہلے دن کے وقت بھی رکھا جا سکتا ہے بشرطیکہ پہلے کچھ کھایا نہ ہو۔ معذور شخص رمضان المبارک کے دوران میں احتراماً سامنے کھانے پینے سے اجتناب کرے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2435
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2433
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2436
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
حضرت ابوعقرب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نبیﷺ سے نفل روزے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”مہینے میں ایک روزہ رکھ لیا کر۔“ میں نے مزید اجازت مانگی اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! میں اپنے آپ کو طاقتور محسوس کرتا ہوں۔ آپ نے مزید اجازت دے دی۔ اور فرمایا: ”ہر مہینے دو روزے رکھ لیا کر۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان! میں اپنے آپ کو طاقتور سمجھتا ہوں۔ رسول اللہﷺ نے (میری بات دوہراتے ہوئے) فرمایا: ”میں اپنے آپ کو طاقت ور سمجھتا ہوں۔ میں اپنے آپ کو طاقت ور سمجھتا ہوں۔“ امید نہیں تھی کہ آپ مزید اجازت فرمائیں گے۔ جب میں نے اصرار کیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”ہر مہینے تین روزے رکھ لیا کر۔“
حدیث حاشیہ:
گزشتہ تمام روایات سے معلوم ہوا نفل روزے کم سے کم رکھے جائیں تاکہ پابندی ہو سکے اور حقوق العباد اور معاش میں بھی خلل واقع نہ ہو۔ مہینے میں تین روزے کافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے پورے مہینے کے روزوں کا ثواب عطا فرما دے گا۔ اس سے زیادہ روزے رکھنا مستحسن نہیں، جائز ہیں۔ نفل روزوں میں اپنی سہولت کا خیال رکھے۔ تینوں روزے اکٹھے رکھنا ضروری نہیں۔ ہر دس دن میں ایک روزہ رکھ لے۔ یا سوموار اور جمعرات کے حساب سے پورے کرے۔ مشقت نہ ہو تو چاندنی راتوں والے دنوں کے تین روزے اکٹھے رکھنا افضل ہے۔ مسلسل روزے رکھنا منع ہے۔ شعبان کے آخری ایک دو دن، عیدین اور ایام تشریق کے روزے رکھنا بھی منع ہے۔ صرف جمعے کے دن روزہ رکھنے سے روکا گیا ہے۔ اسی طرح ہفتے کے دن روزہ رکھنے سے بھی روکا گیا ہے۔ آگے یا پیچھے کوئی اور روزہ بھی رکھا جائے۔ مخصوص روزے، مثلاً: شوال کے چھ روزے اکٹھے رکھے جا سکتے ہیں، ذوالحجہ کے نو روزے اکٹھے رکھے جائیں گے، اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ سارے سال میں ایک ہی دفعہ آتے ہیں۔ سفر میں مشقت نہ ہو تو رمضان المبارک کے روزے رکھ لینا بہتر ہے اور اگر مشقت ہو یا دوسروں کے لیے بوجھ بنے تو نہ رکھنا بہتر ہے۔ جہاد کے دوران میں بھی اگر لڑائی ہو رہی ہے، یا عنقریب ہونے والی ہے تو قوت کے حصول کے لیے رمضان المبارک کے روزے نہ رکھنا افضل ہے، بعد میں روزے پورے کر لے۔ اگر لڑائی دو رہے تو روزے رکھنا بہتر ہے۔ دوران سفر میں نفل روزے رکھنا یا نہ رکھنا مرضی پر موقوف ہے مگر دوسروں کے لیے بوجھ نہ بنے۔ مشقت محسوس ہونے پر یا مہمان کی آمد پر یا انتہائی پسندیدہ کھانا میسر آنے پر نفل روزہ ختم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ بعد میں نفل روزے کی قضا ادا کی جا سکتی ہے، ضروری نہیں۔ نفل روزہ زوال سے پہلے دن کے وقت بھی رکھا جا سکتا ہے بشرطیکہ پہلے کچھ کھایا نہ ہو۔ معذور شخص رمضان المبارک کے دوران میں احتراماً سامنے کھانے پینے سے اجتناب کرے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوعقرب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روزے کے بارے پوچھا، تو آپ نے فرمایا: ”مہینہ میں ایک دن رکھ لیا کرو“، انہوں نے مزید کی درخواست کی اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں اپنے آپ کو طاقتور پاتا ہوں، تو آپ نے اس میں اضافہ فرما دیا، فرمایا: ”ہر مہینہ دو دن رکھ لیا کرو“، تو انہوں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں اپنے آپ کو طاقتور پاتا ہوں، تو رسول اللہ ﷺ نے (میری بات) ”میں اپنے کو طاقتور پاتا ہوں، میں اپنے کو طاقتور پاتا ہوں“ دہرائی، آپ اضافہ کرنے والے نہ تھے، مگر جب انہوں نے اصرار کیا تو آپ نے فرمایا: ”ہر مہینہ تین دن رکھ لیا کرو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Nawfal bin Abi ‘Aqrab, from his father, that he asked the Prophet (ﷺ) about fasting and he said: “Fast One day of each month.” He asked him for more, saying: “May my father and mother be ransomed for you, I am able.” He said: “Fast two days of each month.” He said:“May my father and mother be sacrificed for you, Messenger of Allah, I am able.” The Messenger of Allah (ﷺ) said: “I am able, I am able.” He did not want to increase it, but when I insisted, the Messenger of Allah (ﷺ) said: “Fast three days of each month.” (Sahih)