Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Zakah On Cannels)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2446.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے منقول ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ نہیں اور پانچ اوقیے سے کم (چاندی یا رقم) میں زکاۃ نہیں اور پانچ وسق سے کم غلے میں زکاۃ نہیں۔“
تشریح:
(1) ”پانچ وسق“ وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔ صاع ایک پیمانہ ہے، وزن نہیں۔ اس میں غلے کی ہر قسم کا وزن مختلف ہوگا مگر اوسط وزن ۲ سیر ۴ چھٹانک اور موجودہ وزن کے مطابق ۰۹۹۔۲ کلو گرام ہوتا ہے۔ گویا وسق ۳ من ۱۵ سیر اور موجودہ وزن کے مطابق ۹۷۱۔۱۲۵ کلو گرام اور پانچ وسق ۸۵۵۔۶۲۹ کلو گرام (تقریباً ۱۶ من) کے ہوتے ہیں۔ اگر زمین کی غلے کی پیداوار اس سے کم ہو تو اس میں زکاۃ (عشر وغیرہ) نہ ہو گی۔ (2) ”پانچ اوقیہ“ ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ پانچ اوقیے ۲۰۰ درہم ہوں گے۔ درہم سکہ بھی تھا اور وزن بھی۔ آج کل اکثر علماء کے نزدیک اس وزن کی چاندی کی قیمت نصاب ہے۔ اس سے کم میں زکاۃ نہیں۔ ۲۰۰ درہم کا وزن تقریباً ساڑھے باون تولے ہے۔ اور موجودہ وزن کے مطابق ۳۶۰۔۶۱۲ گرام ہوتا ہے۔ مروجہ کرنسی کی زکاۃ اسی حساب سے ہوگی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2447
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2445
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2448
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے منقول ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ نہیں اور پانچ اوقیے سے کم (چاندی یا رقم) میں زکاۃ نہیں اور پانچ وسق سے کم غلے میں زکاۃ نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”پانچ وسق“ وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔ صاع ایک پیمانہ ہے، وزن نہیں۔ اس میں غلے کی ہر قسم کا وزن مختلف ہوگا مگر اوسط وزن ۲ سیر ۴ چھٹانک اور موجودہ وزن کے مطابق ۰۹۹۔۲ کلو گرام ہوتا ہے۔ گویا وسق ۳ من ۱۵ سیر اور موجودہ وزن کے مطابق ۹۷۱۔۱۲۵ کلو گرام اور پانچ وسق ۸۵۵۔۶۲۹ کلو گرام (تقریباً ۱۶ من) کے ہوتے ہیں۔ اگر زمین کی غلے کی پیداوار اس سے کم ہو تو اس میں زکاۃ (عشر وغیرہ) نہ ہو گی۔ (2) ”پانچ اوقیہ“ ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ پانچ اوقیے ۲۰۰ درہم ہوں گے۔ درہم سکہ بھی تھا اور وزن بھی۔ آج کل اکثر علماء کے نزدیک اس وزن کی چاندی کی قیمت نصاب ہے۔ اس سے کم میں زکاۃ نہیں۔ ۲۰۰ درہم کا وزن تقریباً ساڑھے باون تولے ہے۔ اور موجودہ وزن کے مطابق ۳۶۰۔۶۱۲ گرام ہوتا ہے۔ مروجہ کرنسی کی زکاۃ اسی حساب سے ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوسعید خدری ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ وسق سے کم غلے میں زکاۃ نہیں ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Saeed Al-Khudri that the Messenger of Allah (ﷺ) said: “No Sadaqah is due on less than five Dhawd (head of camel), and no Sadaqah is due on less than five Awaq, and no Sadaqah is due on less than five Awsuq.” (Sahih).