Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The One Who Withholds Zakah On Cattle)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2454.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو بھی اونٹوں، گایوں یا بکریوں کا مالک ان کا حق (ان کی زکاۃ نہیں دے گا، اسے قیامت کے دن ایک ہموار کھلے میدان میں کھڑا کیا جائے گا۔ کھروں والے جانور اسے اپنے کھروں سے کچلیں گے اور سینگوں والے جانور اسے اپنے سینگوں سے ٹکریں ماریں گے۔ ان میں سے کوئی بھی بغیر سینگوں کے نہ ہوگا اور نہ کسی کے سینگ ٹوٹے ہوئے ہوں گے۔‘‘ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! (زکاۃ کے علاوہ ان میں اور کیا حق ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’نر جفتی کے لیے دینا، پانی نکالنے کے لیے ڈول دینا اور اللہ کے راستے میں (جہاد کے لیے اور فقیر وغیرہ ضرورت مند کو بوجھ لادنے اور سواری کے لیے دینا۔ اسی طرح روپے پیسے والا اگر ان کی زکاۃ نہیں دے گا تو قیامت کے دن وہ اس کے لیے ایک گنجا سانپ بنا دیا جائے گا، مالک اس سے بھاگے گا لیکن وہ سانپ اس کے پیچھے دوڑے گا اور کہے گا: میں تیرا وہ خزانہ ہوں جس کے ساتھ تو بل کرتا تھا۔ جب مالک کو یقین ہو جائے گا کہ اس سے بچنے کا کوئی چارہ نہیں تو وہ اپنا ہاتھ اس کے منہ میں ڈال دے گا۔ وہ اس کو اس طر چبائے گا جس طر اونٹ چباتا ہے۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2455
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2453
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2456
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو بھی اونٹوں، گایوں یا بکریوں کا مالک ان کا حق (ان کی زکاۃ نہیں دے گا، اسے قیامت کے دن ایک ہموار کھلے میدان میں کھڑا کیا جائے گا۔ کھروں والے جانور اسے اپنے کھروں سے کچلیں گے اور سینگوں والے جانور اسے اپنے سینگوں سے ٹکریں ماریں گے۔ ان میں سے کوئی بھی بغیر سینگوں کے نہ ہوگا اور نہ کسی کے سینگ ٹوٹے ہوئے ہوں گے۔‘‘ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! (زکاۃ کے علاوہ ان میں اور کیا حق ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’نر جفتی کے لیے دینا، پانی نکالنے کے لیے ڈول دینا اور اللہ کے راستے میں (جہاد کے لیے اور فقیر وغیرہ ضرورت مند کو بوجھ لادنے اور سواری کے لیے دینا۔ اسی طرح روپے پیسے والا اگر ان کی زکاۃ نہیں دے گا تو قیامت کے دن وہ اس کے لیے ایک گنجا سانپ بنا دیا جائے گا، مالک اس سے بھاگے گا لیکن وہ سانپ اس کے پیچھے دوڑے گا اور کہے گا: میں تیرا وہ خزانہ ہوں جس کے ساتھ تو بل کرتا تھا۔ جب مالک کو یقین ہو جائے گا کہ اس سے بچنے کا کوئی چارہ نہیں تو وہ اپنا ہاتھ اس کے منہ میں ڈال دے گا۔ وہ اس کو اس طر چبائے گا جس طر اونٹ چباتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جو بھی اونٹ ، گائے اور بکری والا ان کا حق ادا نہیں کرے گا ، ( یعنی زکاۃ نہیں ادا کرے گا ) تو اسے قیامت کے دن ایک کشادہ ہموار میدان میں کھڑا کیا جائے گا ، کھر والے جانور اپنے کھروں سے اسے روندیں گے ، اور سینگ والے اسے اپنی سینگوں سے ماریں گے ۔ اس دن ان میں کوئی ایسا نہ ہو گا جس کے سینگ ہی نہ ہو اور نہ ہی کسی کی سینگ ٹوٹی ہوئی ہو گی “ ، ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ان کا حق کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” ان پر نر کودوانا ، ان کے ڈول کو منگنی دینا اور اللہ کی راہ میں ان پر بوجھ اور سواری لادنا ، اور جو صاحب مال اپنے مال کا حق ادا نہ کرے گا وہ مال قیامت کے دن ایک گنجے ( زہریلے ) سانپ کی شکل میں اسے دکھائی پڑے گا ، اس کا مالک اس سے بھاگے گا ، اور وہ اس کا پیچھا کرے گا ، اور اس سے کہے گا : یہ تو تیرا وہ خزانہ ہے جس کے ساتھ تو بخل کرتا تھا ، جب وہ دیکھے گا کہ اس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے تو ( لاچار ہو کر ) اپنا ہاتھ اس کے منہ میں ڈال دے گا ، اور وہ اس کو اس طرح چبائے گا جس طرح اونٹ چباتا ہے “ ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Jabir bin ‘Abdullah said: “The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘There is no owner of camels or cattle or sheep who does not give what is due on them, but he will be made to stand for them on the Day of Resurrection in a flat arena, and those with hooves will trample him with their hooves, and those with horns will gore him with their horns. And on that day there will be none that are horniess or have broken horns.’ We said: ‘Messenger of Allah (ﷺ), what is due on them?’ He said: ‘Lending males for breeding, lending their buckets, and giving them to people to ride in the cause of Allah. And there is no owner of wealth who does not give what is due on it but a bald- headed Shuja’a will appear to him on the Day of Resurrection; its owner will flee from it and it will chase him and say to him: This is your treasure which you used to hoard. When he realizes that he cannot escape it he will put his hand in its mouth and it will start to bite it as a stallion bites.” (Sahih)