باب: علیحدہ علیحدہ جانوروں کو اکٹھا یا اکٹھے جانوروں کوعلیحدہ علیحدہ کرنا (منع ہے)
)
Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Combining What Is Separate And Separating What Is Combined)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2457.
حضرت سوید بن غفلہ ؓ نے فرمایا: ہمارے پاس نبی ﷺ کی طرف سے زکاۃ وصول کرنے والا شخص آیا۔ میں اس کے پاس آیا اور بیٹھا۔ میں نے اسے یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھ سے یہ عہد لیا گیا ہے کہ ہم دودھ پیتا بچہ یا دودھ والا جانور زکاۃ میں نہیں لیں گے اور علیحدہ علیحدہ جانوروں کو اکٹھا نہیں کریں گے اور اکٹھے جانوروں کو علیحدہ علیحدہ نہیں کریں گے۔ ایک شخص ان کے پاس اونچی کوہان والی (بہترین اونٹنی لایا اور کہنے لگا: یہ زکاۃ میں لے لو۔ اس نے انکار کر دیا۔
تشریح:
(1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اس کے شواہد ہیں، تاہم شواہد پر صحت اور ضعف کا حکم نہیں لگایا جبکہ دیگر محققین میں سے بعض نے اس روایت کو حسن کہا ہے اور بعض نے صحیح اور اس کے متابعات اور شواہد ذکر کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۲/ ۱۲۵- ۱۲۷، والموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: ۳۱/ ۱۳۲، ۱۳۳، وصحیح سنن أبي داؤد (مفصل للألباني، رقم: ۱۴۰۹) (2) زکاۃ میں درمیانہ جانور لیا جائے گا تاکہ مالک کا نقصان ہو نہ فقراء کا۔ دودھ پیتا بچہ فقراء کے لیے نقصان دہ ہے اور دودھ دینے والا جانور دینا مالک کے لیے نقصان دہ ہے۔ بعض اہل علم نے یہ معنیٰ کیے ہیں کہ ہم اس جانور کی زکاۃ نہیں لیں گے جو دودھ کے لیے رکھا گیا ہو کیونکہ ایسا جانور چرنے والا نہیں ہوتا بلکہ اسے خصوصی چارا ڈالا جاتا ہے۔ (3) علیحدہ جانوروں کو اکٹھا کرنا یا اکٹھے جانوروں کو الگ الگ کرنا جس طرح مالک کے لیے جائز نہیں، اسی طرح زکاۃ وصول کرنے والے کے لیے بھی جائز نہیں، مثلاً: دو بھائیوں کی الگ الگ تیس تیس بکریوں کو ملا کر زکاۃ وصول نہیں کی جائے گی۔ (4) ”اس نے انکار کر دیا۔“ کیونکہ ایسی قیمتی چیز زکاۃ میں لینا جائز نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2458
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2456
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2459
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت سوید بن غفلہ ؓ نے فرمایا: ہمارے پاس نبی ﷺ کی طرف سے زکاۃ وصول کرنے والا شخص آیا۔ میں اس کے پاس آیا اور بیٹھا۔ میں نے اسے یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھ سے یہ عہد لیا گیا ہے کہ ہم دودھ پیتا بچہ یا دودھ والا جانور زکاۃ میں نہیں لیں گے اور علیحدہ علیحدہ جانوروں کو اکٹھا نہیں کریں گے اور اکٹھے جانوروں کو علیحدہ علیحدہ نہیں کریں گے۔ ایک شخص ان کے پاس اونچی کوہان والی (بہترین اونٹنی لایا اور کہنے لگا: یہ زکاۃ میں لے لو۔ اس نے انکار کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اس کے شواہد ہیں، تاہم شواہد پر صحت اور ضعف کا حکم نہیں لگایا جبکہ دیگر محققین میں سے بعض نے اس روایت کو حسن کہا ہے اور بعض نے صحیح اور اس کے متابعات اور شواہد ذکر کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۲/ ۱۲۵- ۱۲۷، والموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: ۳۱/ ۱۳۲، ۱۳۳، وصحیح سنن أبي داؤد (مفصل للألباني، رقم: ۱۴۰۹) (2) زکاۃ میں درمیانہ جانور لیا جائے گا تاکہ مالک کا نقصان ہو نہ فقراء کا۔ دودھ پیتا بچہ فقراء کے لیے نقصان دہ ہے اور دودھ دینے والا جانور دینا مالک کے لیے نقصان دہ ہے۔ بعض اہل علم نے یہ معنیٰ کیے ہیں کہ ہم اس جانور کی زکاۃ نہیں لیں گے جو دودھ کے لیے رکھا گیا ہو کیونکہ ایسا جانور چرنے والا نہیں ہوتا بلکہ اسے خصوصی چارا ڈالا جاتا ہے۔ (3) علیحدہ جانوروں کو اکٹھا کرنا یا اکٹھے جانوروں کو الگ الگ کرنا جس طرح مالک کے لیے جائز نہیں، اسی طرح زکاۃ وصول کرنے والے کے لیے بھی جائز نہیں، مثلاً: دو بھائیوں کی الگ الگ تیس تیس بکریوں کو ملا کر زکاۃ وصول نہیں کی جائے گی۔ (4) ”اس نے انکار کر دیا۔“ کیونکہ ایسی قیمتی چیز زکاۃ میں لینا جائز نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سوید بن غفلہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا محصل (زکاۃ) ہمارے پاس آیا، میں آ کر اس کے پاس بیٹھا تو میں نے اسے کہتے ہوئے سنا کہ میرے عہد و قرار میں یہ بات شامل ہے کہ ہم دودھ پلانے والے جانور نہ لیں۔ اور نہ الگ الگ مال کو یکجا کریں، اور نہ یکجا مال کو الگ الگ کریں۔ پھر ان کے پاس ایک آدمی اونچی کوہان کی ایک اونٹنی لے کر آیا، اور کہنے لگا: اسے لے لو، تو اس نے انکار کیا۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : کیونکہ محصل زکاۃ کو بہترین مال لینے سے منع کیا گیا ہے، اسے درمیانی مال میں سے لینا چاہیئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Suwaid bin Ghafalah said: “The Zakah collector of the Prophet (ﷺ) came to us, and I went to him, sat with him, and heard him say: In my contract it says that we should not take any suckling young, nor combine what is separate, nor separate what is combined.’ A man brought a she-camel with a big hump to him and said: ‘Take it,’ but he refused.” (Da’if)