باب: علیحدہ علیحدہ جانوروں کو اکٹھا یا اکٹھے جانوروں کوعلیحدہ علیحدہ کرنا (منع ہے)
)
Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Combining What Is Separate And Separating What Is Combined)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2458.
حضرت وائل بن حجر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک شخص کو زکاۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ وہ ایک شخص کے پاس آیا تو اس نے اسے ایک کمزور سا اونٹ کا بچہ دیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ایک شخص کو صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا لیکن فلاں شخص نے اسے یہ کمزور سا اونٹ کا بچہ دیا ہے۔ اے اللہ! اس میں اور اس کے اونٹوں میں برکت نہ فرمانا۔“ آپ کی یہ بات اس شخص کو پہنچی تو وہ ایک خوب صورت اونٹنی لے کر آیا اور عرض پرداز ہوا کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے سامنے توبہ کرتا ہوں اور معافی مانگتا ہوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اے اللہ! اس میں اور اس کے اونٹوں میں برکت فرما۔“
تشریح:
محقق کتاب نے مذکورہ روایت کو سفیان ثوری کی وجہ سے سنداً ضعیف قرار دیا ہے کیونکہ سفیان ثوری مدلس ہیں جبکہ دیگر ائمہ ومحققین نے ان کی تدلیس کے باوجود ان کی روایات کو قبول کیا ہے، لہٰذا ان کی تدلیس ضرر رساں نہیں۔ اسی لیے حافظ ابن حجرk نے انھیں طبقات المدلسین، میں، مدلسین کے دوسرے طبقے میں شمار کیا ہے۔ دیکھیے: (طبقات المدلسین، ص: ۲۱، طبعہ دارالبیان بنا بریں دیگر محققین نے اس روایت کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۲/ ۱۲۷- ۱۲۹، وصحیح سنن النسائی اللالبانی، رقم: ۲۴۵۷
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2459
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2457
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2460
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت وائل بن حجر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک شخص کو زکاۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ وہ ایک شخص کے پاس آیا تو اس نے اسے ایک کمزور سا اونٹ کا بچہ دیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ایک شخص کو صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا لیکن فلاں شخص نے اسے یہ کمزور سا اونٹ کا بچہ دیا ہے۔ اے اللہ! اس میں اور اس کے اونٹوں میں برکت نہ فرمانا۔“ آپ کی یہ بات اس شخص کو پہنچی تو وہ ایک خوب صورت اونٹنی لے کر آیا اور عرض پرداز ہوا کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے سامنے توبہ کرتا ہوں اور معافی مانگتا ہوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اے اللہ! اس میں اور اس کے اونٹوں میں برکت فرما۔“
حدیث حاشیہ:
محقق کتاب نے مذکورہ روایت کو سفیان ثوری کی وجہ سے سنداً ضعیف قرار دیا ہے کیونکہ سفیان ثوری مدلس ہیں جبکہ دیگر ائمہ ومحققین نے ان کی تدلیس کے باوجود ان کی روایات کو قبول کیا ہے، لہٰذا ان کی تدلیس ضرر رساں نہیں۔ اسی لیے حافظ ابن حجرk نے انھیں طبقات المدلسین، میں، مدلسین کے دوسرے طبقے میں شمار کیا ہے۔ دیکھیے: (طبقات المدلسین، ص: ۲۱، طبعہ دارالبیان بنا بریں دیگر محققین نے اس روایت کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۲/ ۱۲۷- ۱۲۹، وصحیح سنن النسائی اللالبانی، رقم: ۲۴۵۷
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
وائل بن حجر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو زکاۃ کی وصولی پر بھیجا، وہ ایک شخص کے پاس آیا، اس نے اسے اونٹ کا ایک دبلا بچہ دیا۔ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے محصل زکاۃ (صدقہ وصول کرنے والے) کو بھیجا، فلاں شخص نے اسے ایک دبلا کمزور، دودھ چھوڑا ہوا بچہ دیا۔ اے اللہ! تو اس میں اور اس کے اونٹوں میں برکت نہ دے“، یہ بات اس آدمی کو معلوم ہوئی تو وہ ایک اچھی اونٹنی لے کر آیا، اور کہنے لگا: میں اللہ عزوجل سے توبہ کرتا ہوں اور اللہ کے نبی اکرم ﷺ کے سامنے اپنی اطاعت کا اظہار کرتا ہوں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے اللہ! تو اس میں اور اس کے اونٹوں میں برکت فرما۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Wa’il bin Hujr that the Prophet (ﷺ) sent a collector and he came to a man who brought him a slim, recently- weaned camel. The Prophet (ﷺ) said: “We sent the Zakah collector of Allah and His Messenger, and so-and-so gave him a slim, recently- weaned camel. O Allah, do not bless him nor his camels!” News of that reached the man, so he came with a beautiful she-camel and said: “I repent to Allah and to His Prophet (ﷺ). “ The Prophet (ﷺ) said: “Allah, bless him and his camels!” (Da‘if)